رپورٹ کے مطابق لندن میں قائم "یورو۔ مڈل ایسٹ” نامی گروپ نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پچھلے ماہ کے آخر میں مغربی کنارے کے الخلیل شہر میں 17 سالہ محمود نزال نامی ایک فلسطینی بچے کو اسرائیلی فوجیوں نے 100 میٹر دور سے گولیاں ماریں، وہ زخمی ہونے کے بعد 105 منٹ تک وہیں تڑپتا رہا مگر کسی کو اس کے قریب نہیں جانے دیا گیا۔ اگر اسے بروقت اسپتال پہنچایا جاتا اور اس کے جسم سے بہتا خون روکاجاتا ہے فلسطینی بچے کی زندگی بچنے کا امکان تھا مگردوگھنٹے تک تڑپنے کے بعد فلسطینی نوجوان جام شہادت نوش کرگیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے تیس سے زائد فلسطینی نوجوانوں کو کئی میٹر دور سے نشانہ بنایا۔ زخمی ہونے کے بعد وہ دیر تک وہیں تڑپتے رہے اور ان کے جسم سے خون نکلتا رہا، جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ محمود نزال اس کی اہم ترین مثال ہے
فلسطینی خاتون صحافی ایمان السیلاوی نے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں نے محمود نزال کو الجلمہ چوکی سے کوئی ایک سو میٹر دور فائرنگ سے شہید کیا۔ جب زخمی فلسطینی نوجوان کے پاس گئی تو صہیونی فوجی فورا وہاں پہنچ آئے۔ انہوں نے زخمی فلسطینی بچے کے ساتھ بات کرنے یا اس کی مدد کرنے کی اجازت نہ دی اور دھمکی دی کہ اگر اس نے زخمی کی مدد کی تو اسے بھی گولی ماردی جائے گی۔ السیلاوی کہتی ہیں کہ زخمی ہونے کے 105 منٹ تک نزال زمین پر موت وحیات کی کشمکش میں رہا، اس کے جسم سے بہت زیادہ خون بہہ چکا تھا جس کےبعد وہ جام شہادت نوش کرگیا۔
خیال رہے کہ اکتوبر میں قابض صہیونی فوجیوں نے فلسطین میں عوامی مزاحمت کچلنے کے لیے طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا جس کے نتیجے میں ستر سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جب کہ سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں نے بیشتر شہید کیے گئے فلسطینیوں پر یہودی فوج پر چاقو سے حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام عاید کیا اور اسی بہانے کی آڑ میں انہیں شہید کیا گیا۔