رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی میں "پریس ہوم فاؤنڈیشن” کے زیراہتمام ایک نیوز کانفرنس سے "اسکائپ” کے ذریعے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم اس وقت ایک حقیقی اور جرات مندانہ تحریک انتفاضہ سے گذر رہی ہے جسے ایک مثال کے طورپر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس وقت خطے میں جاری سیاسی بحرانوں کے باعث مسئلہ فلسطین پیچھے چلا گیا ہے مگر تحریک انتفاضہ نے اسے ایک بار پھر خطے کا بڑا اور فوری حل طلب مسئلہ بنا کرپیش کیا ہے۔
تحریک انتفاضہ کیوں شروع ہوئی؟
خالد مشعل کا کہنا تھا کہ حالیہ تحریک انتفاضہ کی چنگاری قبلہ اوّل سے پھوٹی جس کا مقصد مسجد اقصیٰ کی تقسیم کی صہیونی سازشوں کو ناکام بنانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تحریک انتفاضہ کے ثمرات ہیں کہ آج صہیونی دشمن غزہ کی پٹی سے نکل چکا ہے۔ تحریک انتفاضہ کو مغربی کنارے اور بیت المقدس کی آزادی کا ہدف بنا کر آگے بڑھایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ انتفاضہ القدس کو کئی طرح کے نام دیے جا رہے ہیں مگر یہ حقیقی معنوں میں فلسطین میں صہیونی مظالم کے خلاف عوامی بیداری کی تحریک ہے جو ماضی کی کسی بھی تحریک انتفاضہ سے مختلف نہیں ہے۔ اس تحریک کو آگے بڑھا ہم سب کی بنیادی قومی، اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری ہے۔ تحریک انتفاضہ کسی فلسطینی گروپ کے خلاف نہیں بلکہ پوری قوم کے مفاد میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انتفاضہ ایک بوجھ ہے۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ صرف قابض دشمن پر بوجھ ہے۔ فلسطینی قوم کے لیے یہ سراسر فائدہ مند تھریک ہے۔
تحریک انتفاضہ کا پیغام
حماس رہ نما کا کہنا تھا کہ فلسطینی تحریک انتفاضہ سے بہت سے حلقوں کے لیے واضح پیغام ہے۔ یہ فلسطینی قوم، علاقائی قوتوں، عالم اسلام اور صہیونی دشمن کے لیے بھی واضح پیغام ہے۔ صہیونی دشمن کے لیے یہ پیغام ہے کہ فلسطینیوں کی جذبہ آزادی کے حوالے سے اس نے غلط اندازے لگائے ہیں۔ خطے کے ممالک کے لیے یہ پیغام ہے کہ علاقائی بحرانوں کے باوجود فلسطینی قوم اپنے وطن کی آزادی کے مسئلے کو پوری قوت سے زندہ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ تحریک امریکا اور اسرائیل کی پشتیبانی کرنے والی قوتوں کے لیے بھی واضح پیغام ہے کہ انہوں نے فلسطینیوں کے حوالے سے غلط تخمینے لگائے۔ امریکی یہ سمجھتے رہے کہ فلسطینیوں کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے تو وہ تحریک آزادی سے دستبردار ہوجائیں گے۔ ایسا ممکن نہیں۔
تیسرا پیگام فلسطینی قیادت کے لیے ہے۔ وہ یہ کہ صرف عالمی سطح پر اور سفارتی اور سیاسی میدان میں وطن کی آزادی کے لیے مساعی کافی نہیں ہیں۔ صہیونی ریاست کے جرائم اور وطن عزیز میں یہودی آباد کاری کی روک تھام کے لیے فلسطینیوں کو ہتھیار بھی اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
قومی مفاہمت پر زور
حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے نیوز کانفرنس سے خطاب میں فلسطینی سیاسی ،مذہبی اور مزاحمتی قوتوں پر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی کے عوام کی مسائل کا حل قومی مفاہمت میں مضمر ہے۔ غزہ کی پٹی میں دو ملین انسان بستے ہیں۔ ان کے حقوق کے لیے سب کو مل کرکام کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی اس وقت ہرطرف سے محاصرے کا شکار ہے۔ ہم نے غزہ کی پٹی کے بحرانوں کے حل کے لیے قومی اور علاقائی سطح پر بھی اقدامات کیے۔ ہم نے یہ بتایا کہ غزہ کی پٹی فلسطین کا اٹوٹ انگ ہے ۔ اسے فلسطین سے الگ علاقہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ نیز ہم نے سب پر واضح کردیا کہ غزہ کی پٹی کے مسائل کے حل کے لیے ہم کوئی سیاسی قربانی نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی کے لیے کسی نئے میثاق کی ضرورت نہیں۔ فلسطینی تنظیموں میں پہلے کئی مفاہمتی معاہدے ہوچکےہیں۔ ان معاہدوں کی شرائط پرعمل درآمد کی ضرورت ہے۔