دو نومبر کا دن تاریخ کے سیاہ ترین ایام میں سے ایک ہے کیونکہ اس روزیعنی 2 نومبر سنہ 1917ء کوبرطانوی استعمارنے عالمی اوباشوں سے مل کرارض فلسطین پردُنیا کی مفلوک الحال قوم یہود کو بسانے کا مکروہ فیصلہ کیا جسے تاریخ انسانی میں بدترین معاہدے کے طورپریاد رکھا جائےگا۔
رپورٹ کے مطابق معاہدہ بالفوراس وقت کے برطانوی وزیرخارجہ آرتھر جیمز بالفور کے نام سے موسوم ہے۔ جیمز بالفورنے یہ معاہدہ صہیونی تحریک کے سربراہ لارڈ روچیلڈ کے مطالبے پرکیا جس کے تحت سرزمین فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کے ایک مکروہ عمل کا آغازہوا۔ دوسرے الفاظ میں معاہدہ بالفور میں ارض فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن قراردیا گیا اورفلسطینیوں پریہود کی شکل میں ایک عذاب مسلط کیا گیا۔فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کی منظوری اوراس کی عالمی حمایت کے حصول کے اس وقت کی برطانوی حکومت، برطانیہ میں مقیم یہودی رہ نمائوں اورعالمی صہیونی تحریک کےدرمیان تین سال تک مسلسل مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ آخرکار برطانوی وزیرخارجہ نے عالمی صہیونی تحریک کے سربراہ کو ذیل مکتوب تحریر کیا۔
از وزارت خارجہ ، حکومت برطانیہ
دو نومبر1917ء
قابل قدر لارڈ روچیلڈ،
میں برطانوی وزیرخارجہ تاج برطانیہ کے ایک نمائندے کی حیثیت سے آپ کو یہ تحریر کرتے ہوئے انتہائی دلی مسرت محسوس کررہا ہوں کہ وزارت خارجہ اورہماری حکومت نے یہود کی جانب سے علاحدہ وطن کے حصول کے لیے دی گئی تجویز کی منظوری دے دی ہے۔
عظیم تاج برطانیہ اورحکومت کی جانب سے ارض فلسطین میں یہودیوں کے لیے قومی وطن کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے حصول کےلیےہرممکن کوششیں کی جائیں گی اور یہودیوں کے وطن کے قیام میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔ اس کے ساتھ یہ وضاحت بھی ضروری کرتا ہوں کہ فلسطین میں یہودی مذہب کے پیروکاروں کے علاوہ دیگر مذاہب اوراقوام کے لوگوں کو بھی یہود ہی کی طرح شہری اور مذہبی حقوق حاصل ہوں گے۔ جس طرح دنیا کے کسی بھی دوسرے خطے میں مقیم یہودیوں کو بنیادی انسانی اور سیاسی حقوق کا حق حاصل ہے اور وہ ان سے استفادہ کررہے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ آپ ہمارے اس فیصلے کو جلد ازجلد صہیونی تحریک کے دیگر نمائندہ گروپوں تک پہنچائیں گے۔
آپ کا مخلص
آرتھر بالفور
عالمی آئین اور قانون کی رو سے لارڈ آرتھر بلفورڈ نے یہودیوں اور صہیونی تحریک کے ساتھ قیام اسرائیل کے یقین دہانی پرمبنی جو اعلان کیا اسے درج ذیل اسباب کی بناء پر باطل قرار دیا جاتا ہے۔
* ۔۔ اعلان بالفور سنہ 1917 ء میں جاری ہوا۔ اس وقت برطانیہ کا فلسطین پرکسی بھی قسم کا کوئی کنٹرول نہیں تھا اور نہ ہی فلسطین اس وقت برطانیہ کےزیرتسلط تھا۔ اس وقت فلسطین خلافت عثمانیہ کےزیرنگیں تھا اور کسی ملک کو دوسری مملکت میں مداخلت کرکے اس کی اراضی کو اپنی مرضی سے کسی تیسرے فریق کو نہیں دیا جاسکتا ہے۔
* ۔۔ برطانیہ کا فلسطین پر قبضہ سنہ 1922 ء میں اعلان بالفور کے پانچ سال کے بعد ہوتا ہے۔ نیز فلسطین پربرطانوی تسلط بہ ذات خود ناجائز اور غیرقانونی تھا۔ برطانوی حکومت نے کئی مواقع پر اعلان کیا تھا کہ وہ فلسطین کو خلافت عثمانیہ سے آزاد کرائے گی۔ خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہراعتبار سے ناجائز اور غیرقانونی تھا۔ اس لیے ایک قابض اور غاصب ریاست اپنی زیرتسلط علاقے میں اپنی مرضی سے تصرف کا حق نہیں رکھتی۔
* ۔۔۔ ارض فلسطین لوگوں کے ایک ایسے گروپ کو دی گئی جوکسی بھی اعتبار سے اس کا حق نہیں رکھتی تھی۔ برطانیہ کا صہیونیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی دعوت دینا بھی قطعی ناجائز تھا۔
* ۔۔ اعلان بالفور کسی بھی اعتبار سے دو خود مختار ملکوں یا طاقتوں کے درمیان معاہدہ نہیں تھا۔ لارڈ بالفورڈ انگلستانی حکومت کا نمائندہ تھا مگر اسے اپنی ذات یا ملک کے نام پر کسی دوسرے گروپ کے ساتھ معاہدہ کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ اسی طرح صہیونی تحریک کا بانی لارڈ روچیلڈ بھی برطانوی شہری تھا۔ نیز وہ دنیا بھر میں منتشر یہودیوں کا ہرگزنمائندہ نہیں تھا۔ اس لیے مسٹر روچیلڈ کو یہودیوں کا آئینی اور قانونی نمائندہ ہونے کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔
* ۔۔۔ اعلان بالفور سے فلسطین کی صدیوں سے آباد قوم کے تاریخی قومی حق پر کلہاڑا چلایا گیا۔ وہ فلسطینی جو وہاں ہزاروں سال سے آباد چلے آ رہے تھے انہیں وہاں سے نکل جانے کے لیے یہودی مسلح جتھوں کی مدد کی گئی۔ پہلی جنگ عظیم میں یہ بات تسلیم کی گئی تھی کہ حلیف ممالک اور مفتوحہ ریاستوں میں وہاں کے مقامی باشندوں کے حق خود ارادیت کا احترام کیا جائے گا اور انہیں اپنی مرضی کا سیاسی اور سماجی نظام قائم کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
* ۔۔ لارڈ بالفورڈ کا ‘اعلان بالفور’ لیگ آف نیشن کے اصولوں سے بھی صریح انحراف تھا۔ لیگ آف نیشن کے چارٹر کے آرٹیکل 20 کے تحت برطانوی حکومت اعلان بالفور کو منسوخ کرنے کی پابند تھی۔ برطانوی حکومت نے نہ صرف ایسا نہیں کیا بلکہ فلسطین میں ایک ناجائزریاست کے قیام کے لیے صہیونی تحریک کی حمایت کی۔
* برطانیہ کو فلسطین پر ایک قابض ریاست کی حیثیت سےجو مینڈیٹ حاصل تھا اس کے آرٹیکل پانچ کے تحت بھی حکومت برطانیہ فلسطینیوں کے تمام بنیادی حقوق، ان کی اراضی اور ملک کے چپے چپے کے تحفظ کے ذمہ دار تھی۔ اس لیے اس برطانوی حکومت نے اس آرٹیکل بھی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری کی حوصلہ افزائی کی۔