اسرائیل کے عبرانی اخبار”ہارٹز” نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ نیوزی لینڈ جو اگلے ایک سال کے لیے سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے سلامتی کونسل میں اہم کردار ادا کررہا ہے نے رواں سال مارچ میں ہونے والے اسرائیلی انتخابات سےقبل بھی فلسطین اسرائیل مذاکرات کی بحالی کی خاطر ایسی ہی قرارداد تیار کی تھی مگر امریکی مطالبے پر وہ قرارداد سلامتی کونسل میں پیش نہیں کی جاسکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیوزی لینڈ نے چند ماہ قبل تیار کردہ قرارداد کو دوبارہ سلامتی کونسل کے 14 ارکان کو بھیجا ہے اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قرارداد پرعمل درآمد کرتے ہوئے فلسطین ۔ اسرائیل امن بات چیت کی بحالی اور اسرائیل کی یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے لیے قرارداد پر رائے شماری کرائیں۔
قرار داد کے پہلے مسودے میں قرار دیا گیا تھا کہ یہودی بستیوں کی تعمیر روکے جانے کی شرط پر فلسطینی اتھارٹی ہیگ میں قائم بین الاقومی ٹریبونل سے رجوع نہیں کرے گی۔ اسرائیل مستقل طورپر یہودی بستیوں کی تعمیر روک دے گا اور فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی ریاست کے ساتھ امن بات چیت بحال کرے گی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیوز لینڈ کے وزیرخارجہ موری مکولی نے دو ماہ قبل اپنے دورہ اسرائیل کے دوران اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے سامنے بھی یہ تجویز پیش کی تھی۔ تاہم نیتن یاھو نے اس تجویز پر خاموشی اختیار کرلی تھی۔ حال ہی میں نیوزی لینڈ نے اس قراداد کی ایک نقل اسرائیلی محکمہ خارجہ کو بھی ارسال کی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے اس کی مخالفت نہیں کی گئی ہے۔ بادی النظر میں لگ رہا ہے کہ اسرائیل نیوزی لینڈ کی قرارداد کو معمولی ترامیم کے بعد قبول کرسکتا ہے۔
قرارداد کی ایک نقل فلسطینی اتھارٹی کو بھی ارسال کی گئی ہے تاہم اس پر ابھی تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ امکان ہے کہ اگر اسرائیل یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو فلسطینی اتھارٹی بھی اسرائیلی جنگی جرائم کا معاملہ عالمی فوج داری عدالت میں لے جانے کا فیصلہ موخر کردے گی۔