رپورٹ کے مطابق ان دنوں عربی زبان میں نشر ہونے والے اخبار”العربی الجدید” اور اس کی ویب سائیٹ فلسطینی اتھارٹی کے زیرعتاب ہیں۔ پچھلے دو ہفتوں سے فلسطینی ملیشیا مختلف حیلوں بہانوں سے اخبار اور ویب سائیٹ کے رام اللہ میں قائم دفتر کی تالا بندی کے ساتھ ساتھ ادارے سے وابستہ افراد کو دھمکاتے چلے آ رہے ہیں۔
عباس ملیشیا کے اہلکاروں کی جانب سے چند روز قبل اخبار کے دفتر پرچھاپہ مار کر نہ صرف وہاں پرموجود سامان کی توڑپھوڑ کی تھی بلکہ عملے کو بھی زدو کوب کرنے کے بعد انہیں دفتر سے نکال کر عمارت کو تالے لگا دیے تھے۔
فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ چونکہ اخبار نے چند روز پیشتر ایک مضمون شائع کیا گیا تھا جس میں مبینہ طورپر فلسطینی اتھارٹی کے ‘نو رتنوں’ کی توہین کی شان میں گستاخی کی جسارت کی گئی تھی۔ اس لیے اسے بند کیا جا رہا ہے۔ متنازع مضمون کے معاملے کو سامنے لانے کے بجائے نام نہاد بہانے تراشے جا رہے ہیں۔ اخبار کی انتظامیہ سے کہا گیا کہ انہوں نے رام اللہ میں اپنے دفتر کےقیام سے قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں اور متعلقہ حکام بالخصوص پراسیکیوٹر جنرل سے اس کی اجازت حاصل نہیں کی تھی۔ بلا اجازت کسی اخبار کو دفتر قائم کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا ہے۔
اس پر اخبار کی انتظامیہ نے وزارت اطلاعات و نشریات کے قائم مقام سیکرٹری محمود خلیفہ سے رجوع کیا اور انہیں ساری صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ دراصل اخبار کو مغربی کنارے میں اس لیے شائع ہونےسے روکا جا رہا ہے کیونکہ اس میں چند روز قبل فلسطینی اتھارٹی کی شان میں گستاخی پر مبنی ایک مضمو شائع ہوا تھا جو فلسطینی حکام کو سخت گراں گذرا تھا۔
محمود خلیفہ کے بیان کے بعد اصل کہانی سامنے آئی کہ فلسطینی اتھارٹی کا مقصد قانون کی عمل داری نہیں بلکہ آزادی اظہار رائے پر پابندیاں عاید کرنا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں اخبارات کو صرف وہی کچھ شائع کرنے کی اجازت دے رہی ہے جس میں اس کی تعریف وتوصیف کی گئی ہے۔ کسی اخبار کو فلسطینی اتھارٹی کی خامیوں اور اس کی کرپشن کو قوم کے سامنے بے نقاب کرنے کی قطعی اجازت نہیں ہے۔
مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے عتاب کا شکار ہونے والے اخبار "العربی الجدید” پہلا روزنامہ نہیں جو رام اللہ اتھارٹی کی پابندیوں کی شکایت کررہا ہے بلکہ آئے روز اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔