اسرائیلی حکام کی اس ہٹ دھرمی سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو ایک کھلی سازش کے تحت مسجد اقصیٰ کے ان مقامات پر کیمرے نصب کررہے ہیں جہاں فلسطینیوں کی آمد ورفت زیادہ ہے۔
ایک طرف اسرائیلی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کی موجودہ مذہبی حیثیت میں کسی قسم کا تغیرو تبدل نہیں کررہی ہے مگر اس کےبرعکس دوسری جانب صہیونی پولیس اپنی من مانی کرتے ہوئے مرضی کے مقامات پر کیمرے نصب کیے جا رہی ہے۔
فلسطینی محکمہ اوقاف کے ڈائریکٹر برائے القدس امور الشیخ عزام الخطیب کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی پولیس سے کہا تھا کہ وہ مسجد اقصیٰ میں خفیہ کیمرے لگانے کے لیے ان کی تجاویز کو سامنے رکھیں مگر صہیونی پولیس نے ان کی تجاویز مسترد کرتے ہوئے مرضی کے مقامات پر کیمرے نصب کرنا شروع کردیے ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی حکام کی ہٹ دھرمی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کیمروں کی مرضی کے مطابق تنصیب کو قبلہ اول کے امور میں کھلی مداخلت قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ تین روز پیشتر اردن میں اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی وزیرخارجہ جان کیری کے ساتھ ملاقات کے بعد مسجد اقصیٰ میں فلسطینی نمازیوں کی نگرانی کے لیے خفیہ کیمرے لگانے کا اعلان کیا تھا۔ فلسطینی سیاسی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے صہیونی حکومت کے اس فیصلے کو ایک دھوکہ اور فراڈ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے تاہم فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بہ ظاہر ایسے لگ رہا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں مانیٹرنگ کے نام پر خفیہ کیمروں کی تنصیب کا فیصلہ صدر عباس کی مرضی سے ہوا ہے۔