قابض اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس کے 19 فلسطینی باشندوں کی شہریت منسوخ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر اس فلسطینی کی القدس کی شہریت ختم کر دی جائےگی جو یہودی آباد کاروں یا اسرائیلی تنصیبات پرحملوں میں ملوث ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزارت داخلہ کے ایک اجلاس کے دوران صہیونی وزیر داخلہ سلفان شالوم نے کہا کہ ان کے پاس 19 فلسطینیوں کی ایک فہرست پہنچی ہے جو بیت المقدس میں یہودی مفادات اور یہودی آباد کاروں پر حملوں میں ملوث ہیں۔ ہم ان تمام فلسطینیوں کی بیت المقدس کی شہریت ختم کرتے ہوئے انہیں شہر سے نکال باہر کریں گے۔صہیونی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ یہودی آباد کاروں پر حملے اور اسرائیلی تنصیبات کو تباہ کرنے والے فلسطینیوں کو القدس میں سکونت سمیت تمام مراعات کے حصول کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہم ان تمام فلسطینیوں اور ان کے اہل خانہ کو بنیادی مراعات اور سماجی سہولیات روک دیں گے جو یہودی آباد کاروں پر حملے کریں گے یا اسرائیلی تنصیبات کو نقصان پہنچائیں گے۔
اسرائیلی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہودی آباد کاروں پر سنگ باری سمیت دیگر مزاحمتی حملوں میں ملوث فلسطینی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مقبوضہ بیت المقدس میں رہائش پذیر ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ بیت المقدس میں رہائش پذیر فلسطینی اسرائیلی حکومت کی طرف سے ہرقسم کی شہری مراعات حاصل کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیرداخلہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوسری جانب صہیونی وزیرقانون ایئلیٹ شاکیڈ نے ایک نیا مسودہ قانون پیش کیا ہے جس میں سفارش کی گئی ہے کہ یہودی آباد کاروں پر حملے کرنے والے فلسطینی لڑکوں کے خاندانوں کو فراہم کی گئی بنیادی شہری سہولیات سے محروم کردیا جائے۔ نیز ان کی املاک بہ حق سرکار ضبط کرلی جائیں۔ انہیں وارننگ دی جائے اور دوسری باریہودیوں پرحملوں کی پاداش میں پورے خاندان کو بیت المقدس سے بے دخل کیا جائے۔