رپورٹ کے مطابق صہیونی ذرائع ابلاغ اور یہودی میڈیا کی تمام توجہ اس وقت فلسطینیوں کے احتجاجی مظاہروں پر مرکوز ہے اور وہ مسجد اقصیٰ پر یہودی آباد کاروں کے حملوں اور اسرائیلی فوج و پولیس کی نہتے فلسطینیوں پر تشدد کو مسلسل نظرانداز کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کررہے ہیں کہ موجودہ کشیدگی فلسطینیوں کی پیدا کردہ ہے اور اس میں مغربی کنارے اور بیت المقدس کے مقامی فلسطینی باشندے پیش پیش ہیں۔
تیسری تحریک انتفاضہ کی جانب راستہ
مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی زمینی صورت حال مانیٹر کرنے والے فلسطینی ابلاغی ادارے” کیو پریس” نے اپنی رپورٹ میں اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے واویلے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے بتایا ہے کہ فلسطینی شہریوں کے اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کے خلاف مظاہرے صہیونی دانشوروں اور ابلاغی اداروں کے لیے مسلسل درد سر بنے ہوئے ہیں۔
گذشتہ اتوار کو بیت المقدس اور غرب اردن میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں نے صہیونیوں کی چیخیں نکال دی ہیں۔ ان احتجاجی مظاہروں اور اسرائیلی فوج کے ساتھ قریہ بہ قریہ ہونے والی جھڑپوں کے تناظر میں تمام بڑے عبرانی اخبارات نے اسے اسرائیل کے خلاف تیسری تحریک انتفاضہ قرار دیا۔
عبرانی نیوز ویب پورٹل”وللا” نے ایک تفصیلی خبر کی سرخی "تیسری تحریک انتفاضہ کا راستہ” کے الفاظ کے ساتھ جمائی۔ رپورٹ میں بیت المقدس، مسجد اقصیٰ، مغربی کنارے اور اندرون فلسطین میں ہونے والے مظاہروں کی تفصیلات پیش کیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اسرائیل کے خلاف تیسری تحریک انتفاضہ اب شروع ہوچکی ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار "آفی سخاروف” نے اپنے مضمون میں لکھا کہ فلسطین کی موجودہ صورت حال اور کشیدگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسرائیل کے خلاف تیسری تحریک انتفاضہ شروع ہوچکی ہے۔ فلسطینیوں نے یہ ثابت کیاہے کہ وہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں طاقت کے استعمال کی پرواہ اور اس کے نتائج سے لا پروا ہو کر اپنی تحریک میں مزید شدت لانے کا یہ بہترین موقع ہے۔
صہیونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات پرکسی کو خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کشیدگی پر قابو نہیں پایا جاتا تو تیسری انتفاضہ کو روکنا عملا محال ہوجائے گا اور اسرائیل کو بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔
مسٹر سخاروف کا کہنا ہے کہ یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی پولیس کی جانب سے فلسطینیوں پر تشدد کے بعد حالات "پوائنٹ آف نوریٹرن” تک پہنچ چکے ہیں اور موجودہ کشیدگی کسی بھی وقت کسی بڑے خلفشار اور آتش فشاں کےپھٹنے کا موجب بن سکتی ہے۔ کم وبیش یہی تجزیہ دفاعی تجزیہ نگار "رون بن یچائی” نے "وائی نیٹ” میں لکھے گئے اپنے مضمون میں کیا ہے۔
تیسری تحریک انتفاضہ
اسرائیل کے موقر عبرانی روزنامہ "یدیعوت احرونوت” نے موجودہ حالات کے تناظر میں "تیسری انتفاضہ” کے عنوان سے سرخی لگائی۔ اسی اخبار میں "ناحوم برنیاع” نامی یہودی صحافی کا مضمون شائع ہوا جس میں انہوں نے لکھا کہ موجودہ حالات کو جومرضی نام دیا جائے۔ حقیقی معنوں میں یہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی تیسری تحریک انتفاضہ ہے۔ انہوں نے اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت کو ہوش مندی اور حکمت سے کام لینے کا مشورہ دیتے ہوئے لکھا کہ حکومت اور فوج کو موجودہ حالات سے نمٹنے کی ذمہ داریوں سے فرار نہیں ہونا چاہیے۔
صہیونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ہمارے خفیہ اداروں نے یہودیوں کے قتل میں ملوث ایک فلسطینی سیل کو پلک جھپکتے پکڑ لیا۔ پولیس اور فوج کسی بھی فلسطینی”تخریب” کار اور مشکوک شخص کو موقع پر گولی مار کرقتل تو کردیتی ہے مگر فلسطینیوں کے احتجاجی مظاہروں کو روکنے میں آخر کیوں کر ناکام رہی ہے۔ فلسطینیوں کا مسلسل مظاہرے کرنا اور اسرائیلی فوج اور پولیس کو چیلنج کرنا اسرائیل کے سیکیورٹی اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
اسرائیل کے عبرانی اور دیگر زبانوں میں شائع ہونے والے اخبارات و جرائد اور نیوز ویب سائیٹس کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ان دنوں فلسطینیوں کی موجودہ تحریک پر مضامین، تجزیہ اور تبصروں کی بھرمار دکھائی دیتی ہے۔ ہر طرف "تحریک انتفاضہ، تحریک انتفاضہ” کا غوغا ہے۔ اسرائیل کے ایوان حکومت سے لے کر پولیس اور فوج کے مراکز تک، تھینک ٹینکس سے لے کر اخبارات وجرائد تک سب فلسطینیوں کے احتجاجی مظاہروں سے خوف زدہ ہیں۔
تباہی کے دھانے پر
عبرانی اخبار”ہارٹز” نے اپنے اداریے میں حکومت اور فوج سمیت تمام سیکیورٹی اداروں کو فلسطینیوں کی موجودہ تحریک کو روکنے میں ناکامی پر کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کو بھی خوف رگیدا ہے۔ اخبار میں شائع ہونے والے عسکری تجزیہ نگار”عاموس ھریئیل” نے اپنے مضمون بہ عنوا”تباہی کے دھانے پر” میں لکھا کہ حالیہ مہینوں میں جو تماشا قوم نے بیت المقدس اور غرب اردن میں دیکھا ہے وہ تحریک انتفاضہ سے کم ہرگز نہیں ہے۔ اسرائیلی فوج، سیکیورٹی ادارے اور فلسطینی اتھارٹی کی پولیس مل کربھی فلسطینی مظاہرین کونکیل ڈالنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
مسٹر ہریئیل نے مزید لکھا ہے کہ اگر موجودہ کشیدہ صورت حال پرقابو پانے میں مکمل ناکامی ہوجاتی ہے تو اسرائیل کو اس سے بھی بدترین تشدد کی لہر کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسرائیلی دفاعی تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ ماضی میں اس طرح کی تحریک اٹھتی رہی ہیں۔ اس لیے غرب اردن اور بیت المقدس کے ساتھ ساتھ فلسطین کے دوسرے شہروں میں اسرائیل کے خلاف پرتشدد واقعات رونما ہونے کا اندیشہ ہے۔
ماہرین کے خیال میں اسرائیلی دفاعی تجزیہ نگاروں کا یہ اندازہ درست ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطینیوں کی حالیہ تحریک کا دائرہ مزید وسعت اختیار کرسکتا ہے۔ بعض تازہ واقعات نے اس خدشے کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب اور سنہ 1948 ء کے فلسطینی شہروں میں بھی اسرائیل کے خلاف مظاہرے اور یہودی آباد کاروں پر فلسطینیوں کے حملوں کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔