مسجد الاقصی میں فلسطینیوں کے داخلے پر مختلف قسم کی پابندیوں کی وجہ سے بیت المقدس اور دریائے اردن کے مغربی کنارے میں گزشتہ چند روز کے دوران صیہونی فوجیوں اور فلسطینی شہریوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ بیت المقدس پر تسلط کے لیے صیہونیوں کی جارحانہ پالیسیوں پر فلسطینیوں اور اقوام متحدہ کا ردعمل، فلسطینی علاقوں خاص طور پر بیت المقدس کے بارے میں اپنی پالیسیاں فلسطینیوں اور عالمی برادری پر تھوپنے اور انھیں قبول کرانے میں صیہونی حکومت کی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق صیہونی حکومت ایک غاصب حکومت کی حیثیت سے فلسطینی علاقوں میں آبادی کا تناسب اور ان کی جغرافیائی ساخت کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی بھی اقدام نہیں کر سکتی ہے۔ صیہونی حکومت نے ہمیشہ ہرممکن طریقے سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کہ جس کا دارالحکومت قدس ہو، کے قیام کو روکنے کی کوشش کی ہے اور اس بنا پر وہ قدس کو اس غاصب حکومت کا دارالحکومت بنانے کے درپے رہی ہے۔ اس سلسلے میں انیس سو اسی میں صیہونی حکومت کی پارلیمنٹ نے بیت المقدس کو غاصب اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے ایک بل منظور کر کے اس فلسطینی شہر کو غاصب صیہونی حکومت کا دارالحکومت قرار دیا اور مختلف ممالک سے درخواست کی کہ وہ غاصب اسرائیل میں اپنے سفارت خانوں کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کر دیں۔
صیہونی حکوت قدس میں تشدد پسندانہ اور توسیع پسندانہ اقدامات کو تیز کر کے فلسطینیوں کو اس شہر سے نکالنا چاہتی ہے جبکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں دو سو بیالیس اور تین سو اڑتیس اور جنیوا کنونشن چار کے تحت صیہونی حکومت کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ہر قسم کی دخل اندازی اور تصرف سے روکا گیا ہے۔ قدس کے اہم اور بیشتر علاقوں پر تسلط جمانے کے لیے صیہونی حکومت کے اپنے قبضے کو مضبوط بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد چار سو اٹھتر کے بھی برخلاف ہیں۔ قرارداد چار سو اٹھتر میں دنیا کے تمام ملکوں سے واضح طور پر مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ قدس کو مقبوضہ فلسطین یعنی اسرائیل میں شامل کرنے اور قبضے اور جارحیت کو جاری رکھنے کے سلسلے میں اسرائیل کے کسی بھی قسم کے اقدام کو تسلیم نہ کریں اور اس کا مقابلہ کریں۔
ان حالات میں رائے عامہ کو بین الاقوامی اداروں سے توقع ہے کہ اقوام متحدہ زبانی مذمت پر اکتفا نہیں کرے گا اور صیہونی حکومت کو غاصبانہ اور جارحانہ اقدامات کو جاری رکھنے سے روکنے کے لیے عملی اقدامات انجام دے گا۔ بہرحال حالیہ برسوں کے دوران اقوام متحدہ نے رائے عامہ کے دباؤ کے تحت فلسطینی عوام کے حقوق پر زیادہ توجہ دینے کے سلسلے میں بعض مثبت اقدامات کیے ہیں جس کی وجہ سے اقوام متحدہ میں فلسطین کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے اور اس سے فلسطین کی حمایت میں مثبت بین الاقوامی فضا وجود میں آئی ہے۔
اس تناظر میں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں میں فلسطین کا پرچم لہرائے جانے کی تقریب سے قبل اقوام متحدہ کی جانب سے بیت المقدس میں صیہونی حکومت کی تسلط پسندی پر تنقید، عالمی سطح پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کہ جس کا دارالحکومت قدس ہو، کی تشکیل کے راستے میں صہونی حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کیے جانے کی مخالفت کی عکاسی کرتی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ میں فلسطین کا پرچم لہرایا جانا فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کا پیغام دینے کے ساتھ ساتھ ان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے حق اور قبضے کی نفی پر زور دیتا ہے۔