فلسطینی صدر محمود عباس نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے معاہدوں کی مسلسل خلاف ورزی کے بعد ان کے پاس ان معاہدوں کو برقرار رکھنےکا کوئی جواز باقی نہیں رہا ہے۔ جب ایک فریق مسلسل خلاف ورزیاں کرے تو اس کی پابندی نہیں کرسکتا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صدر محمود عباس نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے ایک قابض اور غاصب ریاست ہونے کا عملی ثبوت دیا ہے اور موجودہ حالات کی تمام ترذمہ داری اسرائیل پرعاید ہوتی ہے۔ امن کوششوں کا جواب بدامنی کی شکل میں دیا گیا۔ اس لیے یہ صورت حال زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھی جاسکتی۔ تاہم محمود عباس نے اپنی تقریر میں معاہدے توڑنے کے بعد اس کے کسی قسم کے متبادل کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جس سے ان کی تمام دھمکیاں اور دعوے مشکوک دکھائی دیتے ہیں۔محمود عباس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "میں آج یہاں جن جن باتوں کا اعلان کررہا ہوں ان پر ہرصورت میں عمل درآمد ہوگا۔ ہم ان امور پرعمل درآمد کے لیے تمام پرامن اور قانونی راستے اپنائیں گے۔ یا تو اسرائیل کو فلسطینی قوم کو آزادی دینا ہوگی یا ایک قابض اور غاصب ریاست کی حیثیت سے تمام ذمہ داریاں قبول کرنا ہوں گی۔
بار بار اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کرنے والے محمود عباس نے کہا ‘ میرے خیال میں اب ہمارے پاس مذاکرات میں وقت ضائع کرنے کا جواز نہیں رہا ہے۔ اپنے اس بیان سے قبل صدر محمود عباس فرانس کی جانب سے فلسطین۔ اسرائیل امن مذاکرات کی بحالی کی مساعی کا خیر مقدم کرچکے ہیں۔
ابو مازن کا کہنا تھا کہ فلسطین سے اسرائیل کے ناجائزقبضے کے خاتمے اور بین الاقوامی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے عالمی برادری کی معاونت درکار ہے۔ میں اقوام متحدہ سے پرزور مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ فلسطینی قوم کے بنیادی انسانی حقوق انہیں دلانے میں ہمارے حمایت کرے۔
صدر محمود عباس نے بیت المقدس کی موجودہ کشیدہ صورت حال پربھی عالمی برادری کے کان کھولنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ "میں خطرے کی گھنٹی لے کر تمہارے پاس فلسطین سے آیا ہوں۔ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ بیت المقدس میں کیا ہو رہا ہے۔ اسرائیل کی انتہا پسند تنظیمیں باربار مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کررہی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کو زمانی ومکانی اعتبار سے تقسیم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ انتہا پسندوں کو اسرائیلی فوج کی مدد اور تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ اسرائیلی وزراء اور ارکان کنیسٹ بھی قبلہ اول میں داخل ہوتے اور مقدس مقام کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں یہودیوں کو کھل کھیلنے کی مکمل اجازت ہے مگر فلسطینیوں کو نماز کی ادائی سے روکا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتی۔
انہوں نے خبردار کیا کہ بیت المقدس میں جاری سیاسی کشکش مذہبی جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے اور بیت المقدس آتش فشاں بن کر پھٹ سکتا ہے۔