مرکزاطلاعاعات فلسطین کے مطابق خالد مشعل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک مفصل نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فلسطین کے موجودہ داخلی بحران کا بھی حل پیش کیا۔ انہوں نے فلسطینی سیاسی قوتوں اور فلسطینی اتھارٹی پر زور دیاکہ وہ نیشنل کونسل کے ہنگامی اجلاس بلانے کے بجائے قومی مذاکرات کا آغاز کریں، مجلس قانون سازکو موثر ادارہ بنائیں اور با اختیار مخلوط قومی حکومت تشکیل دے کر اندرونی بحران کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
تحریک دفاع مسجد اقصیٰ
خالد مشعل نے اپنی نیوز کانفرنس میں مسجد اقصیٰ کو انتہا پسند یہودیوں اور اسرائیل کی منظم سازشوں کے نتیجے میں لاحق خطرات پر تفصیل سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کی تقسیم کی سازشیں عملی شروع ہوچکی ہیں۔ یہودی قبلہ اول کو زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے میں بالعموم پوری فلسطینی قوم بالخصوص بیت المقدس کے عوام سے پرزور مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ دفاع قبلہ اول کے لیے نفیر عام کا اعلان کردیں اور مسجد اقصیٰ کو صہیونیوں سے بچانے کے لیے مزاحمت کے تمام وسائل کا بھرپور استعمال کریں۔
انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کا دفاع مضبوط مزاحمتی ہاتھوں ہی سے ممکن ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی بازوئوں کو آزاد کیا جائے تاکہ وہ نصرت اقصٰی کے لیے اپنا کردار ادا کرسکیں۔ مسجد اقصیٰ کو جس قسم کی سازشوں کا سامنا ہے ان پر ایک لمحے کے لیے خاموش رہنے یا صبر کا مظاہرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ کا دفاع صرف مزاحمت کے ذریعے ممکن ہے۔ فلسطینی قوم کو مقدس مقام کے دفاع کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردینا چاہیے۔
خالد مشعل کا کہنا تھا کہ مسجد اقصیٰ نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ پورے عالم اسلام کو باہم شیرو شکر اور متحد رکھے ہوئے ہے۔ اسی اتحاد کا تقاضا ہے کہ فلسطینی قوم مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے ایک ہوجائے اور دن رات اس کے تقدس کی حفاظت کے لیے تحریک چلائے۔
یہودی آباد کاروں کے ہاتھوں زندہ جلائی گئی فلسطینی خاتون رھام دوابشہ کی گذشتہ روز شہادت پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ دوابشہ خاندان کا خون پوری مسلم امہ کی گردنوں پر قرض ہے۔
انہوں نے مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے کوششیں کرنے والے بیت المقدس کے مردو وخواتین کی مساعی کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔
داخلی بحران کے حل کی تجاویز
حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے فلسطین کے موجودہ داخلی بحران کے حل کے لیے بھی اہم تجاویز پیش کیں۔ انہوں نےکہا کہ فلسطین میں نیشنل کونسل کے اجلاس منعقد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ فیصلہ صرف فلسطینی اتھارٹی کا ذاتی ہے جسے فلسطینی سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ اس اجلاس سے تنظیم آزادی فلسطین کو تقویت نہیں دی جاسکتی۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات غیرمعقول ہوگی کہ اگر حماس اور اسلامی جہادی جیسی دو اہم فلسطینی تنظیموں کو نظرانداز کرکے قومی سطح کے کسی ادارے کی تشکیل نو کی جائے۔ حماس اور اسلامی جہاد اس وقت فلسطین کی نمائںدہ اور بڑی جماعتیں ہیں۔ اس لیے میری تجویز ہے کہ نیشنل کونسل کا اجلاس بلانے کے بجائے فلسطینی مجلس قانون ساز کو فعال بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ با اختیار مخلوط قومی حکومت کی تشکیل عمل میں لائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت فلسطینی عوام بے اتفاقی کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ مجلس قانون ساز جیسا نمائندہ قومی ادارہ غیر فعال ہے۔ ایسے میں تنظیم آزادی فلسطین کی تشکیل نو کیسے کی جاسکتی ہے۔ موجودہ حالات میں کسی ایک گروپ کی جانب سے تنظیم آزادی فلسطین کی تشکیل ملک میں پائے جانے والے سیاسی اختلافات کی خلیج کو مزید گہرا کرے گی۔ مشاورت کے بجائے یک طرفہ اور آمرانہ فیصلوں کے ذریعے ملک کی سیاسی صورت حال مزید گھمبیر ہوگی۔
خالد مشعل کا کہنا تھا کہ انہوں نے صدر محمود عباس اور تحریک فتح کی قیادت کو اپنی طرف سے واضح پیغام پہنچا دیا ہے کہ ان کے یک طرفہ فیصلے قومی اداروں کی تشکیل کے حوالے سے موثر ثابت نہیں ہوسکتے۔ امید ہے وہ حماس کی آواز اور مطالبے پرسنیں گے اور اس پرعمل درآمد کی کوشش کریں گے۔
غزہ میں جنگ بندی
غزہ کی پٹی میں جنگ بندی سے متعلق بات کرتے ہوئےخالد مشعل نے کہا کہ ہم نے طویل المیعاد جنگ بندی کی بات چیت کی تھی مگر ہم کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم جنگ بندی کے لیے واضح شرائط کے ساتھ بات چیت میں شامل ہوئے ہیں۔ اسرائیل کو جنگ سے متاثرہ علاقے کا محاصرہ ہرصورت میں ختم کرنا ہوگا۔ محاصرہ جاری رہنے کی صورت میں جنگ بندی ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ جنگ بندی صرف غزہ کی پٹی کی حد تک ہے۔ غرب اردن میں جنگ بندی اس لیے نہیں ہوسکتی ہے اس علاقے پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ موجود ہے۔
ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی سے متعلق کوئی بھی فیصلہ تنہا حماس نہیں کرے گی بلکہ تمام فلسطینی قوتوں کو اس میں شامل کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ مزاحمتی فیصلے، سیاسی فیصلے اور مشترکہ سیکیورٹی کے معاملات بھی کسی ایک فریق کے نہیں بلکہ تمام نمائندہ دھڑوں کے اشتراک سے کیے جائیں گے۔