مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے ترجمان ڈاکٹر سامی ابو زھری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مصری میڈیا میں "جیل توڑنے” کے نام سے مشہورمقدمہ میں حماس کے کئی کارکنوں کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ حماس اس فیصلے کو انتہائی افسوسناک اور ظالمانہ سمجھتی ہے کیونکہ مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ مصری عدالت کا فیصلہ مکمل طورپر سیاسی نوعیت کا ہے اور مصرکی فوجی حکومت عدلیہ کو دبائو کے ذریعے اس طرح کے غیر منصفانہ فیصلے کرانے پر مجبور کررہی ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ مصری عدالت کی جانب سے جن کارکنوں کو پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں میں سے بعض پہلے اسرائیلی فوج کے ساتھ جھڑپوں میں شہید ہوچکے ہیں اور ایک جیل میں قید ہے۔ شہداء اور اسیران کو پھانسی کی سزائیں سنانے کاکوئی جواز نہیں ہے۔
خیال رہے کہ کل ہفتے کے روز مصر کی ایک فوج داری عدالت نے جنوری 2011ء کو سابق مصری صدر حسنی مبارک کے خلاف عوامی بغاوت کے دوران جیل توڑںے میں معاونت کرنے والے افراد کے خلاف کیس کا فیصلہ سنایا گیا جس میں حماس، اسلامی جہاد، حزب اللہ اور اخوان المسلمون کے ایک سو سے زاید ارکان کو موت کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ان میں سابق مصری صدر محمد مرسی اور جماعت کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع سمیت 34 قائدین اور کارکنان بھی شامل ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوںنے جنوری 2011ء کے فسادات کے دوران قاہرہ میں النطرون جیل پرحملہ کرکے جیل توڑ ڈالی تھی جس کے نتیجے میں سیکڑوں انتہائی خطرناک قیدیوں سمیت ہزاروں کی تعداد میں قیدی فرار ہوگئے تھے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین
