مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی سپریم کورٹ کی جانب سے گذشتہ روز جاری ایک فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فرانسیسی جریدے ’’چارلی ایبڈو‘‘ کی اسرائیل میں سرکولیشن پر پابندی عاید نہیں کی جا سکتی ہے۔ اگر کسی گروپ کو پابندی کا اندیشہ ہے تو یہ فیصلہ اس کے حق میں ہے کیونکہ عدالت جریدے کی سرکولیشن اور تقسیم کاری پر پابندی ختم کرتی ہے۔
خیال رہے کہ چارلی ایبڈو فرانسیسی یہودیوں کی زیرنگرانی شائع ہونے والا ایک ہفت روزہ جریدہ ہے جس نے مبینہ طور پر متعدد مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ خاکے شایع کر کے پوری اسلامی دنیا کے جذبات کو مشتعل کیا تھا۔
گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے رد عمل میں جنوری میں پیرس میں اس جریدے کے دفترپر حملے میں اٹھارہ کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔
دوسری جانب اسلامی تحریک نے صہیونی عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایک بیان میں اسلامی تحریک کا کہنا ہے کہ اسرائیلی عدالت کی طرف سے چارلی ایبڈو کی سرکولیشن کی اجازت دینا ایک مکروہ فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ کسی عدالت کا نہیں بلکہ انتہا پسند یہودیوں کی جانب سے جاری کیا گیا ہے جو نام نہاد آزادی اظہار رائے کی آڑ میں مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرکے پوری دنیا کا امن تاراج کرنا چاہتے ہیں۔
ادھر اسرائیل کی انتہا پسند سیاسی جماعت ’’اسرائیل بیتنا‘‘ کی جانب سے ٹویٹر اکائونٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ چارلی ایبڈو کی سرکولیشن کی اجازت اس لیے حاصل کی گئی تاکہ عرب سیاسی جماعتوں کا مقابلہ کیا جا سکے کیونکہ بہت سی عرب سیاسی جماعتوں نے اس جریدے کی اسرائیل سے اشاعت اور اس کی تقسیم کے خلاف مہم چلا رکھی تھی۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین