اقتصادی ایجنسی ’’بلومبرگ‘‘ کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں یورپ میں مقیم یہودیوں کی اسرائیل منتقلی میں عدل دلچسپی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یورپی ملکوں کے یہودی اسرائیل کو سیکیورٹی کے حوالے سے نہایت خطرناک ملک قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسرائیلی حکومتوں کی تمام ترکوششوں کے باوجود صہیونی ریاست میں آباد ہونے سے سختی سے گریزاں ہیں۔
رپورٹ کےمطابق جنوری کے اوائل میں فرانس میں یہودی مراکز اور ایک سپر اسٹورپر حملے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو نے فرانس میں مقیم یہودیوں سے کہا تھا کہ وہ اسرائیل میں آجائیں۔ یہاں انہیں ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ نیتن یاھو کے اس مطالبے کو فرانسیسی یہودیوں نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ فرانسیسی یہودیوں کا کہنا ہے کہ نتین یاھو کا بیان انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ یہودیوں کو تحفظ نہیں دے سکتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال فرانس سے سات ہزار 231 یہودی اسرائیل میں آباد ہوئے۔ یہ یقینا ایک بڑی تعداد ہے جو پچھلے برسوں کے مقابلے میں غیرمعمولی ہے۔ پچھلے سالوں میں سالانہ دو ہزار کے لگ بھگ یہودی اسرائیل میں آباد ہوتے رہے ہیں۔ لیکن یہ تعداد بھی فرانس میں مقیم یہودیوں کا صرف ڈیڑھ فی صد ہے۔
دیگر یورپی ملکوں سے پچھلے سال ایک ہزار 688 یہودی فلسطین منتقل ہوئے۔ یہ تعداد یورپی ملکوں میں موجود یہودیوں کی اصل آبادی کے شمار قطار میں بھی نہیں ہے۔ فرانس میں مقیم 40 سالہ یہودی خاتون امیلی دھان کا کہنا ہے کہ جب رواں سال جنوری میں ہمارے ملک میں یہودی تجارتی مراکز پرحملے ہوئے تو مجھے احساس ہوا کہ ان حملوں میں یہودیوں کو خاص طورپر نشانہ بنایا گیا ہے۔ میں نے فرانس چھوڑنے کا ارادہ کیا مگر پھر سوچا کہ اگرفرانس میں امن نہیں تو اور کہاں مل سکتا ہے۔ اس لیے میں نے یہ تہیہ کرلیا کہ میں اول و آخر فرانسیسی شہری رہوں گی چاہے کچھ بھی ہوجائے۔
اسرائیل کی عبرانی یونیورسٹی سے وابستہ آبادی سے متعلق امور کے ماہر سرگیو ڈیلا فرگولا کا کہنا ہے کہ یورپی ملکوں میں مقیم یہودیوں کے لیے اسرائیل میں دلچسپی کا کوئی سامان نہیں ہے۔ یورپی یہودی خود کو اسرائیل میں غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہماری حکومتوں کی مسلسل کوششوں کے باوجود اپنے ملک چھوڑنے سے گریزاں ہیں۔
بلومبرگ کے مطابق برطانیہ میں یہودیوں کی تعداد تین لاکھ ہے لیکن ان میں سے صرف 627 یہودی اسرائیل منتقل ہوئے۔ اسی طرح جرمنی میں یہودیوں کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار ہے جب میں اسرائیل آنے والوں کی تعداد صرف ایک سو تین ہے۔
حال ہی میں اسرائیل سے جرمنی منتقل ہونے والے ایک یہودی آباد کار نے کہا کہ وہ پانچ سال پہلے اسرائیل آیا تھا لیکن یہاں کے حالات دیکھنے کے بعد جرمنی میں رہنا زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔ اس نے کہا کہ اسرائیل میں آباد ہونے کا مطالبہ صرف صہیونی وزیراعظم نیتن یاھو کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔
ایک دوسرے فرانسیسی یہودی کاکہنا ہے کہ اسرائیل میں اقتصادی اور سماجی ملاپ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اسرائیل منتقلی کے لیے بھی دل گردہ چاہیے کیونکہ صہیونی ریاست کی طرف ھجرت کئی قسم کے خطرات میں گھری ہوئی ہے۔
اسرائیلی اخبار’’ہارٹز‘‘ کے مطابق ڈنمارک کے یہودیوں نے بھی اسرائیل منتقلی سے صاف انکار کردیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ ڈنمارک میں حال ہی میں ایک دہشت گردانہ حملہ ہوا جس میں یہودیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا مگر وہاں کے لوگ اس نوعیت کے حملوں کے بعد اپنا ملک چھوڑ کراسرائیل آباد ہونے کے حق میں نہیں ہیں۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین