مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی میڈیا میں آنے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران غزہ کے 8000 افراد نے بیرون ملک جانے کے لیے درخواستیں جمع کرائی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کی بیرون ملک سفر کی زیادہ سے زیادہ درخواستیں مسترد کیے جانے کے پس پردہ محرک یہ ہے کہ گذرگاہ پر زیادہ ھجوم جمع نہ ہو بلکہ کم سے کم افراد گذرگاہوں پر موجود رہ سکیں۔
بدھ کے روز اسرائیل سے شائع ہونے والے اخبار "ہارٹز” نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ سنہ 1997ء کے بعد سے اسرائیل کے غزہ کی پیٹی کے شہریوں کو غرب اردن کے راستے بیرون ملک جانے سے روکنا شروع کیا تھا، جس کے بعد غزہ کے لوگوں کے لیے بیرون ملک سفر کا صرف واحد راستہ رفح گذرگاہ ہی بچا تھا۔ پچھلے ایک سال سے یہ بھی بند ہے۔
امن وامان کے مسائل کی وجہ سے مصری فوج نے بھی رفح گذرگاہ کو زیادہ وقت کے لیے بند ہی رکھا ہوا ہے۔ اس لیے غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے وہ طلباء جنہوں نے بیرون ملک کی جامعات میں داخلہ لے رکھا ہے ان کے بیرون ملک سفر میں شدید مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پچھلے ماہ جنوری میں اسرائیلی فوج کی نگرانی میں غزہ کی پٹی کے 150 طلباء کو غرب اردن کے راستے اردن سے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی۔ ایک سو پچاس کی تعداد اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کی گئی ہے تاہم اسرائیل کے فلسطینیوں کو بیرون ملک بھیجنے کے نگران ادارے کی جانب سے اخبار "ہارٹز” کو بتایا گیا کہ جنوری میں غزہ سے تعلق رکھنے والے صرف 38 فلسطینی کو بیرون ملک بھیجا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم "غیشاہ” کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی کے 150 طلباء کے کاغذات کی تصدیق کے بعد انہیں بیرون ملک بھیجا گیا مگر فوج کو بیرون ملک جانے کے خواہش مند 300 طلباء کی درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔ آخری ہفتوں میں ان درخواستیں میں مزید 100 کا اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گذرگاہوں کی بندش سے نہ صرف غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے طلباء کی بیرون ملک جاری تعلیم کا وقت ضائع ہو رہا ہے بلکہ ان کے تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات اور ویزوں کی مدت بھی ختم ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں مجدی اسماعیل نامی ایک فلسطینی طالب علم کی مثال دی گئی ہے، جس نے میڈیکل کے شعبے میں تعلیم کے حصول کے لیے تیونس پہنچنا ہے۔ اگر وہ رواں ماہ کے آخر تک بیرون ملک نہیں جا سکا تو اس کے ویزہ کی مدت ختم ہوجائے گی۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین