مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کی جاب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے سلامتی کونسل میں جو قرارداد پیش کی ہے وہ فلسطینی قوم کے بنیادی اصولوں اور دیرینہ مطالبات اور حقوق کی نمائندگی نہیں کرتی۔ اس میں فلسطینیوں کے بنیادی مطالبات کو نظرانداز کرکے اسرائیل کو ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے یک طرفہ طور پر یہ قرارداد تیار کی ہے جس کا مسودہ تنظیم آزادی فلسطین اور فلسطین کی کسی دوسری سیاسی جماعت کو بھی نہیں دکھایا گیا۔ اس لیے حماس تنظیم آزادی فلسطین سے پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد کی واپسی کے لیے موثر اقدامات کرے اور فلسطینی اتھارٹی کو ایسی قراردادیں پیش نہ کرنے کا سختی سے پابند بنائے جن میں فلسطینی قوم کے بنیادی حقوق سے انحراف کیا گیا ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ قرارداد فلسطینی قوم کی نمائندہ ہے اور پی ایل او کے ایک محدود گروپ نے کی تیاری میں معاونت کی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تنظیم آزادی فلسطین کو اس کی حقیقت کا علم تک نہیں ہے۔ اس قرارداد میں پہلی بات ارض فلسطین پرغاصب اور قابض صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کی کی گئی ہے۔ اسرائیل کو بہ طور یہودی ریاست تسلیم کرنے کا مطلب سنہ 1948 ء کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی مزید جبری بے دخلی اور فلسطینیوں کے حق واپسی کو ختم کرنا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل کے کسی امن پروگرام کے ذریعے فلسطینی قوم کےحق واپسی پر ضرب لگانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ایسی کوئی اصطلاح قابل قبول نہیں ہے جس میں فلسطینیوں کے حق واپسی سمیت کسی بھی دوسرے حق میں پسپائی اختیار کی جائے گی۔
حماس نے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر محمود عباس کی طرف سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد میں بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کے بجائے اور فلسطین کا مشترکہ دارالحکومت قرار دینے کی تجویز قبول کی گئی ہے۔ فلسطین قوم بیت المقدس کو تقسیم کرنے کی کسی بھی سازش کو قبول نہیں کریں گے اور ایسی ہر سازش اور کوشش کی مزاحمت کی جائے گی۔
خیال رہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے وسط دسمبر میں سلامتی کونسل میں ایک مسودہ قرارداد جمع کرایا تھا جس میں آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے دو سال کی ڈیڈ لاین دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم فلسطین کے سیاسی حلقوں کی جانب سے اس قرارداد کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ قرارداد میں فلسطینی قوم کے بنیادی مطالبات اور حقوق سے کھلم کھلا انحراف کیا گیا ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین