مرکز اطلاعات فلسطین کی ایک رپورٹ کے مطابق اگرچہ شمالی فلسطین کے بعض عرب شہریوں کا یہ خیال ہے کہ اسرائیل کے اس گئے گذرے جمہوری عمل کا حصہ بن کروہ اپنے حقوق کی موثر انداز میں آواز بلند کرسکتے ہیں مگر اس کے برعکس بھاری تعداد میں عرب شہریوں کا خیال ہے کہ اسرائیل دراصل ’’چہرہ روشن اندرون تاریک تر‘‘ کے مصداق دنیا کو دکھانے کے لیے جمہوریت، انسانی حقوق اور انتخابی سیاست کا راگ الاپ رہا ہے۔ عملا صہیونی ریاست ایک نسل پرست یہودی ریاست کا روپ دھار چکی ہے، جس میں غیر یہود کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
حال ہی میں جہاں صہیونی ریاست کی مختلف سیاسی جماعتوں نے مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948 ء کے علاقوں میں پرزور انتخابی مہم شروع کی ہے وہیں انہیں مقامی عرب آبادی کی جانب سے سخت نفرت اور بائیکاٹ کی مہمات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اسرائیل کے انتخابی عمل میں شرکت کا حامی بلاک بھی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ صہیونی ریاست عملا فلسطینیوں کے خلاف امتیازی سلوک رواک رکھے ہوئے ہے۔ غالب امکان ہے کہ عرب کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے امیدوار اور سیاست دان ’’عربوں اور فلسطینیوں سے امتیازی سلوک نسل پرستانہ طرز عمل بند کرو‘‘ کے نعرے کے ساتھ ایک اتحاد بھی قائم کرسکتے ہیں۔
دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونکے مترادف
فلسطینی تجزیہ نگار سلمان مصالحہ نے اسرائیل کے انتخابی عمل اور فلسطینیوں کی جانب سے اس کے بائیکاٹ پربات کرتے ہوئے کہا کہ اب کی بار بائیکاٹ کی شرح ماضی کی نسبت زیادہ موثر رہے گی اور عرب کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی ارکان کنیسٹ کو بہت کم ووٹ پڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کے لیے بائیکاٹ کا فیصلہ زیادہ بہتر ہے کیونکہ انتخابات اور جمہوریت اسرائیل کا ایک ڈھونگ ہے۔ اسرائیل انتخابی عمل سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکے کی کوشش کررہا ہے تاکہ دنیا کو یہ بتا سکے کہ ملک میں مکمل طور پر جمہوریت قائم ہے۔
سلمان مصالحہ کا کہنا تھا کہ انتخابات کے نتیجے میں فلسطینیوں کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اسرائیلی ریاست سب کچھ ہڑپ کر جانے کے بعد چچوڑی ہڈیاں فلسطینیوں کو دینا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عرب شہریوں کو انتخابی عمل میں شریک کرنا تل ابیب کی مجبوری ہے کیونکہ وہ پوری دنیا کے سامنے یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ اسرائیل میں موجود عرب اور فلسطینی آبادی بھی صہیونی ریاست سے محبت کرتی ہے۔ تاہم وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے انتخابی ڈھونگ کے بائیکاٹ کی مہم زیادہ موثر انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ فلسطینی عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کے ووٹ کی قیمت پر اسرائیل کو دنیا کے سامنے اپنا چہرہ خوبصورت بنا کر پیش کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ اسرائیل جس طرح فلسطین میں ذلت و رسوائی کا سامنا کررہا ہے، پوری دنیا میں وہ اس کے لیے جگ ہنسائی کا کام بن جائے۔
انتخابی عمل کا بائیکاٹ
اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے فلسطینی عرب شہریوں کی سیٹوں میں اضافے کے بعد انتخابی عمل کے حامی پورے شد ومد کے ساتھ انتخابی مہمات چلا رہے ہیں۔ لیکن ان کے مقابلے میں فلسطینی عوام کے بائیکاٹ کی مہمات زیادہ موثر دکھائی دیتی ہیں۔ بائیکاٹ کرنے والے قائدین کا موقف ہے کہ وہ انتخابات کو سنجیدہ نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ انتخابی عمل کے نتیجے میں انہیں ان کے حقوق فراہم نہیں کیے جائیں گے۔ اس لیے وہ ایسے کسی فلسطینی عرب سیاسی اتحاد کی حمایت نہیں کریں گے جو فلسطینی عوام کے کندھوں پرسوار ہوکر اسرائیلی کنیسٹ کا حصہ بن سکے۔
بائیکاٹ گروپ کے پاس موثر دلائل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی انتخابی عمل اور عرب شہریوں کا اسرائیلی کنیسٹ کے ارکان منتخب ہونے کی مثالیں موجود ہیں مگر آج تک کسی عرب شہری کو اسرائیلی حکومتوں میں کوئی اہم انتظامی عہدہ نہیں دیا گیا۔
اسرائیل کے پارلیمانی انتخابات کے بائیکاٹ کی مہمات میں پیش پیش فلسطینی سماجی رہ نما محمد قبھا نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نوجوانوں کو اسرائیلی انتخابی عمل کے بائیکاٹ پر قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم فلسطین کا حصہ ہیں۔ اگر ہم لوگ اسرائیلی ریاست کے انتخابی ڈھونگ میں شامل ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اسرائیل ہی کے باشندے ہیں اور ہمارا فلسطینی قوم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے ہم صرف آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد نئی ریاست کے تحت انتخابی عمل کا حصہ بنیں گے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی شہریوں کا صہیونی انتخابی ڈھونگ میں شرکت کرنے سے ہمارا آزادی کا قومی مطالبہ بھی غیر موثر ہوسکتا ہے کیونکہ انتخابات اور جمہوری عمل میں شرکت کا مطلب یہ ہگا کہ ہم اسرائیل کو بہ طور ریاست تسلیم کررہے ہیں اور ایک اقلیت کے طور پر فلسطین میں زندگی گذارنے پر راضی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی عمل کا بائیکاٹ پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ ہم ارض فلسطین پر یہودی ریاست کے وجود کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ انتخابات کا بائیکاٹ کرکے یہ پیغام پوری دنیا تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ اسرائیل میں انتخابات فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی انتخابات میں حصہ لینا فلسطینیوں کے لیے قطعی بے سود ہے۔ اس کا ماضی میں کوئی فائدہ پہنچا ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس کی کوئی توقع کی جاسکتی ہے۔ اسرائیل کے انتخابی عمل میں حصہ لینا اور صہیونی ریاست سے بنیادی حقوق کی توقع رکھنا عبث ہے۔ ایسی امیدیں ریت کے گھروندے ثابت ہوتی ہیں۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین