انھوں نے یہ اعلان جمعہ کے روز پارلیمان میں اپنے افتتاحی خطاب کے دوران کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دیرینہ تنازعے کو بین الاقوامی قانون کے مطابق مذاکرات کے ذریعے ہی طے کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ ”تنازعے کے دوریاستی حل کے لیے باہمی طور پر ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے اور اس سے ہی پُرامن بقائے باہمی ممکن ہے۔اس لیے سویڈن ریاست فلسطین کو تسلیم کرلے گا”۔
سویڈن کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی مل کر مخلوط حکومت تشکیل دے رہی ہیں اور ان کو پارلیمان میں عددی اکثریت حاصل نہیں ہے۔سویڈن میں ان کی حکومت گذشتہ چند عشروں کے بعد کمزور ترین ہو گی۔اس کی پیش رو دائیں بازو کی حکومت نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کا اپنے زیر زنگیں علاقوں پر کنٹرول نہیں ہے۔
یاد رہے کہ 2012ء میں فلسطین کو اقوام متحدہ میں مبصر سے بڑھ کر”غیررکن ریاست” کا درجہ مل گیا تھا۔ امریکا نے سلامتی کونسل میں فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی مخالفت کی تھی جس کے بعد جنرل اسمبلی میں رائے شماری کے ذریعے اس کا درجہ بڑھانے کی منظوری دے دی گئی تھی اور اس کو ویٹی کن کی طرح مبصر سے غیر رکن ریاست کا درجہ مل گیا تھا۔
اس سے فلسطینی ریاست کو بطور ریاست جنرل اسمبلی میں کسی مسئلے پر رائے شماری کے دوران ووٹ دینے کا حق حاصل ہو گیا تھا اور وہ عالمی اداروں میں بھی شمولیت اختیار کر سکتی ہے۔اس کے بعد فلسطین کو اقوام متحدہ کے تحت سائنسی ،تعلیمی اور ثقافتی ادارے یونیسکو کی رکنیت مل گئی تھی۔اس کے ردعمل میں امریکا اور اسرائیل نے پیرس میں قائم اس ادارے کے فنڈز روک لیے تھے۔
اب اگرسویڈن فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لیتا ہے تو یہ عالمی سفارتی محاذ پر فلسطینیوں کی نمایاں کامیابی ہوگی۔سویڈن عالمی امور میں ایک دیانت دار ثالث کار کی شہرت کا حامل ہے۔اس فیصلے کے بعد دوسرے یورپی ممالک بھی ریاست فلسطین کو تسلیم کرنے کے لیے غور پر مجبور ہوجائیں گے
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین