مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق برطانوی اخبار "گارڈیئن” میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں مسٹر بنسوڈا کا کہنا ہے کہ معاہدہ روم پراسیکیوٹر جنرل کو کسی بھی ملک کے خلاف اس پر عائد جنگی جرائم کی تحقیقات کی سفارش کرتا ہے لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے کا خواہش مند ملک آئی سی سی کا رکن بھی ہو۔ اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر اپنے شہریوں پر جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے تو معاہدہ کے دفعہ 12 کے تحت عالمی عدالت اس کی تحقیقات کی پابند ہے۔
انہوں نے فلسطینی ریاست کی جانب اشارہ کیا کیونکہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ عالمی عدالت کے پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ ابھی تک فلسطین عالمی فوج داری عدالت کا رکن نہیں بنا ہے اور نہ ہی فلسطینی اتھارٹی نے معاہدہ روم پر دستخط کیے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ جو ملک اقوام متحدہ کا غیر مبصر رکن بن سکتا ہو وہ آئی سی سی کی رکنیت کی درخواست بھی دے سکتا ہے۔ خیال رہے کہ فلسطین سنہ 2012ء میں اقوام متحدہ کا ایک مبصر ممبر بن چکا ہے۔
بنسوڈا نے اپنے مضمون میں اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ انہیں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات سے پہلو تہی کے لیے دباو کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جنگی جرائم کے الزامات کی تحقیقات کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی فوج داری عدالت خود سے فلسطینی اتھارٹی کی قائم مقام بن کر تحقیقات نہیں کرسکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے فلسطینی اتھارٹی عالمی ادارے کی رکنیت حاصل کرے اور اس کے بعد تحقیقات کے لیے درخواست دائر کرے۔