اسلامی تحریک مزاحمت”حماس” کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے واضح کیا ہے کہ ان کی جماعت اسرائیل سے اس وقت تک جنگ بندی نہیں کرے گی جب تک کہ غزہ کی پٹی کا پچھلے آٹھ سال سے جاری محاصرہ مکمل طورپر ختم نہیں کر دیا جاتا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق دوحہ میں ایک انٹرویو میں خالد مشعل نے کہا کہ مصرکی جانب سے جو جنگ بندی فارمولا پیش کیا گیا تھا اس میں مظلوم فلسطینی عوام کے وحشیانہ قتل عام کی روک تھام اور غزہ کی پٹی کے محاصرے کے خاتمے کی کوئی بات موجود نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حماس نے مصری جنگ بندی کی تجویز مسترد کر دی ہے۔ایک سوال کے جواب میں حماس کے لیڈر کا کہنا تھا کہ وہ تمام ممالک جو غزہ کی پٹی کے معاشی محاصرے پر خاموش رہے وہ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم میں صہیونیوں کے جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے عوام کو جنینے کا مکمل حق دیا جائے۔ خالد مشعل نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ حل کرانے کے لیے عالمی سطح پر کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں اسرائیلی سفاک دشمن کے ہاتھوں نہتے فلسطینی آج بھی اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ انہوں نے غزہ کی پٹی پر تازہ جارحیت، مغربی کنارے اور بیت المقدس میں بے گناہ شہریوں کی گرفتاریوں، ان کے مکانات کی مسماری اور فلاحی اداروں پر چھاپوں کی شدید مذمت کی اور کہا کہ اسرائیل کےیہ تمام اقدامات جنگی جرائم کا حصہ ہیں۔
خالد مشعل کا کہنا تھا کہ فلسطین میں جب تک اسرائیل کی آخری یہودی کالونی موجود ہے تب تک ہماری جد و جہد جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ بعض عالمی طاقتوں نے اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے فلسطینی قوم سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ بمباری سے ہمارے بچے شہید کیے جا رہے ہیں اور ہمیں ہی ظالم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے استفسا کیا کہ کیا اپنے بنیادی انسانی حقوق اور آزادی کا مطالبہ کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ ایک ریاست اپنی پوری طاقت فلسطینیوں پر چڑھا کر ان کا اجتماعی قتل عام شروع کردے۔
خالد مشعل نے انتہا پسند اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کو فلسطینیوں کو دشمن اول قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیتن یاھو نے سیاسی مقاصد کے لیے فلسطینی عوام کا کشت وخون شروع کر رکھا ہے۔ نیتن یاھو نے بلا جواز غزہ کی پٹی پر فوجی کشی کی ہے لیکن اب اسرائیل کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ حماس کے کارکنوں پر شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا الزام قطعی بے بنیاد ہے۔ جب اسرائیل کےایف 16 جنگی طیارے نہتے شہری آبادی پر بم برسائیں اور ان کےنتیجے میں بے گنا شہری مارے جائیں تو کیا یہ اموات بھی حماس کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ اسرائیل کے تمام الزامات من گھڑت ہیں جن کا مقصد عالمی برادری کے سامنے اپنی صفائی اور غزہ پر حملوں کا جواز ترشتا ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس کی جماعت الفتح کےساتھ حماس کی مفاہمت کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل کا کہنا تھا کہ ہم نے مفاہمت قومی مفاد میں کی ہے۔ ہم نیتن یاھو اس ان کے کسی دوسرے پشتیان کے دباؤ میں آ کر قومی مفاہمت ختم نہیں کریں گے۔ اسرائیلی جارحیت اور غیرملکی دباؤ ہمیں مزید متحد کرے گا۔
امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے فلسطین مین جنگ بندی کی مساعی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ امریکی صدر کے ہاتھ”غیرمنطقی” قوانین کی وجہ سے بندھے ہوئے ہیں۔ امریکا حماس کے ساتھ اسرائیلی اور صہیونی مفادات کی خاطر کسی قسم کا تعلق قائم نہیں کرنا چاہتا۔ ہمیں بھی امریکا سے تعلقات کے قیام مین کوئی جلدی نہیں ہے۔ جب امریکا حماس کو دہشت گرد قرار دے تو ہم دوستی کے لیے امریکیوں کے تلوے کیوں چاٹیں گے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کے اسرائیل نواز غیرمنطقی قوانین خود امریکی مفادات کے خلاف ہیں۔ امریکا کی اسرائیل نوازی نے اسے عالمی برادری کی نظروں میں بھی متنازعہ بنا دیا ہے اور فلسطینی عوام اب امریکیوں پر اعتبار نہیں کر سکتے ہیں۔