اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے خارجہ تعلقات کے شعبے کے سربراہ اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ جب تک غزہ کی پٹی پر عائد معاشی پابندیاں ختم نہیں کی جاتیں، حماس اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کی سیز فائر کو قبول نہیں کرے گی۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسامہ حمدان نے”الرسالہ ڈاٹ نیٹ” کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان کسی قسم کی فائر بندی کے لیے بیرونی سطح پر کسی قسم کی مساعی نہیں ہو رہی ہیں۔ موجودہ حالات کے تناظرمیں اسرائیل سے کسی قسم کا امن معاہدہ نہیں ہو سکتا ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کے درمیان طے پائے مفاہمتی معاہدے کو توڑنے کی سازش کر رہا ہے۔ ایسے میں صہیونی ریاست سے فائر بندی کیسے کی جا سکتی ہے۔
اسامہ حمدان کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست کی جانب سے غزہ کی پٹی پر جنگ مسلط کی گئی، جارحیت کے ہوتے ہوئے سیز فائر نہیں ہو سکتا۔ اسرائیل کو پہلے غزہ کی پٹی پر مسلط جنگ ختم کر کے شہر عائد معاشی پابندیاں ختم کرنا ہوں گی۔
ایک سوال کے جواب میں حماس رہنما نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ فائر معاہدے کے لیے کسی دوسرے ملک کی جانب سے کوئی مفاہمتی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔ ابھی تک مصر کی جانب سے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی گئی اور نہ قاہرہ کسی قسم کی فائر بندی میں دلچسپی رکھتا ہے۔
انہوں نےکہا کہ اسرائیل طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ حماس قومی مطالبات اور بنیادی حقوق کے سے دستبردار ہو جائے۔
ایک سوال کے جواب میں اسامہ حمدان کا کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی پر بڑی جنگ مسلط کرنے کے لیے عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون قوم سے بددیانتی کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی پراسرائیلی جارحیت اور مغربی کنارے میں جاری کریک ڈاؤن کی ذمہ داری حماس پر عائد کی جا رہی ہے۔ جبکہ حالات کی خرابی کی تمام ذمہ داری اسرائیلی دشمن پر عائد ہوتی ہے۔ حماس کو مورد الزام ٹھہرانے والے صہیونی دشمن کی حمایت کے مرتکب ہو کر فلسطینی تحریک مزاحمت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔