اسرائیل کی یہودی آبادکاری مخالف تنظیم ”اب امن”(پیس نو) نے اس منصوبے کی اطلاع دی ہے اور بتایا ہے کہ منصوبہ منظوری کے مختلف مراحل میں ہے۔اس کے تحت ایریل بلاک میں سب سے زیادہ 839 نئے مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔تاہم اسرائیل کی وزارت دفاع نے اس منصوبے کی ابھی حتمی منظوری نہیں دی ہے اور اس کی جانب سے منظوری کے بعد اس عمل درآمد کا آغاز ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے امریکا کی ثالثی میں فلسطینی اتھارٹی سے مذاکرات کے ساتھ ساتھ غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی آبادکاروں کے لیے نئے مکانوں کی تعمیر اور ان کی آبادکاری کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے جبکہ فلسطینی غرب اردن ،مقبوضہ بیت المقدس اور غزہ کی پٹی پر مشتمل اپنی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن اسرائِیل کی فلسطینیوں کی سرزمین ہتھیانے کی پالیسی کی وجہ سے اب تک فریقین مذاکرات میں کسی حتمی سمجھوتے تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔
اسرائیل کے ایک دفاعی عہدے دار کا کہنا ہے کہ مکانوں کی تعمیر کا یہ منصوبہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس پر بنیادی نوعیت کی بات چیت جاری ہے۔دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو رودینہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل یہودی آبادکاری کی سرگرمیوں میں منظم انداز میں اضافہ کرکے امن مذاکرات کے عمل کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش کررہا ہے۔
”اب امن” نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا تھا کہ نئی تعمیرات سے آبادکاری میں ڈرامائی انداز میں اضافہ ہو جائَے گا اور اس سے فلسطینیوں پر مذاکرات کو خیرباد کہنے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔اس تنظیم نے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس ”جنگلی رویے” سے باز آجائے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں 1967ء کی جنگ میں قبضے کے بعد تعمیر کردہ یہودی آبادکاروں کی بستیوں کو غیر قانونی قراردیتی ہے جبکہ فلسطینی ان بستیوں کو مستقبل میں اپنی مجوزہ ریاست کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قراردے رہے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان جولائی 2013ء میں تین سال کے بعد امریکا کی ثالثی میں امن مذاکرات بحال ہوئے تھے لیکن اب تک ان میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوسکی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے پر اصرار ہے۔
انتہا پسند صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو حال ہی میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے کا اعلان کرچکے ہیں اور انھوں نے اس انتباہ کو نظرانداز کردیا ہے کہ یہودی آباد کاری کے جاری رہنے کی صورت میں فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاکرات ختم ہوسکتے ہیں۔ان کی حکومت فلسطینیوں کی سرزمین ہتھیانے کی پالیسی پر بدستور عمل پیرا ہے اور وہ اس ضمن میں امریکا یا کسی اورملک کے دباؤ کو خاطر میں نہیں لارہی ہے۔