اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] نے فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس سے ایک بارپھر اسرائیل سے بے مقصد مذاکرات ترک کرتے ہوئے قومی مفاہمت کی طرف لوٹنے پر زور دیا ہے۔
حماس نے واضح کیا ہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیر بھی جاری ہے، بیت المقدس کو یہودیانے کی سازشیں بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں اور اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی میں بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اس سب کے باوجود مذاکرات ایک خطرناک سازش تو ہو سکتے ہیں مگر ان کا فلسطینی عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے ترجمان سامی ابوزھری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے یہودیوں کے لیے مزید پندرہ سو مکانات کی تعمیر فلسطینی مذاکرات کاروں کے نام نہاد مذاکرات پرایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر مذاکرات جاری ہیں تو یہودی بستیوں کا تسلسل کیوں جاری ہے۔ کیا یہ مذاکرات صہیونی ریاستی جرائم کی پردہ پوشی کی سازش تو نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک یہ بے سود مذاکرات وقت کا ضیاع اور ایک بڑا سانحہ ہیں۔ اس لیے حماس ایک بار پھر یہ مطالبہ دہراتی ہے کہ رام اللہ اتھارٹی مذاکرات کے جھانسے سے باہر نکل آئے۔
سامی ابوزھری نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی جانب سے یہ کہنا ہے کہ انہوں نے یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنےکے بد لے میں چند فلسطینی اسیران کو رہا کیا ہے ایک خطرناک اشارہ ہے۔ یہ فلسطینی اتھارٹی کو مذاکرات کے نام پربلیک میل کرنے کی گھناؤنی سازش معلوم ہوتی ہے۔ فلسطینی مذاکرات کار اگرعقل و دانش سے عاری نہیں ہیں تو انہیں مذاکرات کا فوری بائیکاٹ کر دینا چاہیے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین