اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] نے فلسطین میں موجود مقدس اسلامی مقامات، فلسطینیوں کی جان مال پر خون خوارحملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے انہیں ناقابل برداشت قرار دیا ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ غاصب صہیونی ریاست فلسطینیوں کا ان کے وطن میں ناطقہ بند کرنے کے لیے ان کی املاک پرحملے کر رہی ہے۔ فلسطینیوں کے مکانات مسمار کیے جا رہے ہیں اور نئی مکانات کی تعمیرکی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں پر بھاری ٹیکس عائد کر کے ان کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں مغربی کنارے اور بیت المقدس میں اسرائیلی فوج اور انتہا پسند یہودیوں کے بڑھتے حملوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 16 ستمبر سے 20 اکتوبر 2013 ء کے درمیانی عرصے میں مغربی کنارے اور بیت المقدس میں فلسطینیوں کی املاک پر حملوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب امریکا کی نگرانی میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان نام نہاد امن مذاکرات کاعمل بھی جاری ہے۔ یوں ایک اعتبار سے یہ حملے ان نام نہاد مذاکرات کا نتیجہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہودی آباد کاروں اور اسرائیل کی شرانگیز کارروائیوں سے فلسطین کے تمام شعبہ ہائے زندگی تباہ ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک بدترین مثال بیت المقدس کے اسکولوں میں اسرائیلی نصاب تعلیم کا جبرا نفاذ ہے۔ اس اقدام کا مقصد فلسطینیوں کی اپنی قومی تاریخ اور تحریک آزادی کے لیے دی جانے والی قربانیوں سے لا علم رکھتے ہوئے ان کی شناخت کو ختم کرنا ہے۔
رپورٹ میں مسجد اقصیٰ پراسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کے روز افزوں بڑھتے حملوں پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے انہیں ناقابل برداشت قرار دیا گیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ ستمبر کے مہینے میں اسرائیلی حکومت اور فوج کی نگرانی منیں انتہا پسند یہودی تنظیمیں مسجد اقصٰی پرمسلسل حملوں میں ملوث رہی ہیں۔ اس دوران مسجد اقصٰی کے پانچویں حصے پر ایک یہودی معبد کی تعمیر گذشتہ ماہ کا سب سے خطرناک منصوبہ قرار دیا جاسکتا ہے جس کا مقصد مسجد اقصٰی کو تقسیم کرنےکی گھناؤنی سازش کرنا ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین