مغربی کنارے کے شہر بیت لحم میں ایک انتہاء پسند یہودیہ نے جان بوجھ کر ایک فلسطینی بچے کو اپنی گاڑی تلے روند ڈالا ہے۔ تقوع ٹاؤن میں گھر سے اسکول جانے والا یہ بچہ دوسری کلاس کا طالب علم تھا اور اس کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔
خیال رہے کہ 1967ء سے مغربی کنارے میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ غیر قانونی یہودی بستیاں قائم کی گئی ہیں جن کے مکینوں کی جانب سے فلسطینیوں پر مظالم کی نئی نئی داستانیں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ نسلی برتری کے زعم میں مبتلا یہودی آباد کاروں کی جانب سے سڑک پر چلتے بچوں کو جان بوجھ کر گاڑی تلے روندنا اور پھر اسرائیلی حکام کی جانب سے اسے ٹریف حادثے کا رنگ دینا بھی یہودی بدطینتی فطرت کا ایک پہلو ہے۔
تقوع ٹاؤن کے ڈائریکٹر تیسیر ابو مفرح نے خبر رساں ایجنسی ’’قدس پریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مالک عادل شاعر اسکول جا رہا تھا کہ ایک یہودی خاتون نے اسے اپنی گاڑی تلے دے ڈالا جس سے عادل الشاعر کی ٹانگوں پر شدید زخم آئے ہیں۔ اسے 1948ء کے مقبوضہ فلسطین کے ایک ہسپتال میں علاج کے لیے منتقل کر دیا گیا ہے۔
ابو مفرح نے بتایا کہ تقوع اور نکودیم کے علاقوں کی جانب جانے والی اس شاہراہ پر یہودی آباد کاروں کی جانب سے بچوں کو کاروں تلے روندنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے گزرنے کے لیے سڑک پر امتیازی لکیر کھینچنے کی اجازت نہ دینا ہے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے چلنے کے لیے جگہ مخصوص کردینے کے باعث اس سڑک پر یہودی آباد کاروں کی گاڑیوں کے گزرنے میں تنگی ہو جائے گی۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین