امریکی صدر براک اوباما کو اپنے دورہ اسرائیل میں اس وقت خجالت کا سامنا کرنا پڑا جب ایک مقبوضہ مغربی بیت المقدس میں ان کے خطاب کے دوران ربیع عید نامی فلسطینی نوجوان نے کھڑے ہو کر چلانا شروع کر دیا۔
صدر کو مخاطب کرتے ہوئے ربیع نے کہا کہ ” امن کے لٗے آپ نے کیا کیا؟ یا آپ صرف فلسطینیوں کے قتل کے لئے اسرائیل کو مزید اسلحہ ہی فراہم کئے جا رہے ہیں؟” "کیا آپ نے غرب اردن جاتے ہوئے اپنے راستے میں دیوار فاصل دیکھی؟”
فلسطینی اخبار "الایام” کے مطابق ربیع عید کا تعلق سن 48 ء کو اسرائیلی قبضے میں جانے والے گرین لائن ایریا سے ہے۔ وہ فلسطینی بلدیہ عیلبون میں ‘بلد’ تحریک کے سرگرم کارکن ہیں۔ عید کا کہنا تھا کہ "اس ہال میں فلسطینی بھی موجود ہیں۔ یہ ملک اس کے تمام باسیوں کے لئے ہونا چاہئے، صرف یہودی عوام کے لئے نہیں۔” فلسطینی نوجوان غصے میں چلاتا رہا کہ "ریچل کوری کو کس نے قتل کیا؟ ریچل آپ کی دولت اور اسلحے کی بھینٹ چڑھی۔
تیئس سالہ امریکی رضاکار دوشیزہ ریچل کوری کو سولہ مارچ 2003 ء میں اس وقت ایک اسرائیلی بلڈوزر نے کچل ڈالا تھا کہ جب وہ غزہ کی پٹی کے علاقے رفح میں فلسطینی مہاجرین کیمپ میں فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری روکنے کے حق میں مظاہرہ کر رہی تھی۔
فلسطینی طالب علم کی مداخلت سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے متعدد اہلکاروں نے عید پر ہلہ بولا اور اس کے ہاتھ کمر پر باندھ کر اسے گھسیٹے ہوئے ہال سے باہر لے گئے، تاہم موقع پر صحافیوں کی بڑی تعداد کو کوریج کے لئے تیار دیکھ کر اسرائیلی حکام نے اس سے واجبی سے پوچھ تاچھ کے بعد رہا کر دیا، تاہم اسے پروگرام میں دوبارہ شرکت کرنے سے روک دیا گیا۔
فلسطینی طالب علم کی مداخلت کا حوالہ دیتے ہوئے صدر براک اوباما نے کہا کہ یہی وہ آزاد تبادلہ خیال ہے جس کا ہم ذکر کرتے ہیں۔ اس پر حاضرین نے زوردار تالیوں سے ان کے اس نکتے پر انہیں خود داد دی۔ انہوں نے کہا کہ ہم وہ سب کرنے کو تیار ہیں جس کا ذکر نوجوان نے کیا ہے۔ اس واقعے کے بعد مجھے لگ رہا ہے کہ میں امریکا میں ہی ہوں۔ اگر یہ واقعہ رونما نہ ہوتا تو شاید مجھے اتنا سکون نہ ملتا۔
ادھر فلسطینی طالب علم ربیع عید نے ہال سے باہر واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے صدر اوباما کی تقریر کا بائیکاٹ کرنے پر ندامت نہیں کیونکہ ان تک فلسطینیوں کے جذبات پہنچانے کا یہی واحد طریقہ بچا تھا، اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ یہ بات سنیں۔
یاد رہے کہ صدر کی تقریر سننے کے لئے اسرائیل کی متعدد یونیورسٹیوں اور کالجز سے طلبہ کا چناؤ انتہائی چابکدستی سے کیا گیا تھا۔ اس بات کا پورا خیال رکھا گیا تھا کہ تقریب بدمزگی کا شکا نہ ہوں اس مقصد کے لئے ہال میں موجود طلبہ سے باقاعدہ تحریری طور پرعہد لیا گیا تھا کہ جس میں انہوں نے دستخطوں کے ساتھ تقریب میں غل نہ مچانے کا عہد نامہ لکھ کر دیا تھا۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین