قسط۔۲گزشتہ سے پیوستہ
ترجمہ : ادارہ وائس آف فلسطین
میں پہلے شخص سے ملا وہ ریاض تھا۔اس کی عمر 25سال تھی۔میں اسے بالکل پسند نہیں کرتا تھا کیونکہ وہ بہت زیادہ بولتا تھا ،لیکن میں نے اسے اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا۔
وہ کافی عجیب باتیں کرتا تھا،میں نے اندازہ لگایا کہ وہ دوسری مرتبہ قید کیا گیا ہے۔اس نے مجھے کہا کہ جب تفتیش ختم ہو جائے گی تو تمھیں دوسری بڑی جیل لے جایا جائے گا جو اس جیل سے قدرے زیادہ اچھی ہو گی۔میں وہاں اور بہت سارے لوگوں سے ملا ،میں چاہتا تھا کہ میں کھیلوں ۔
ریاض نے مجھے بتایا کہ اگر تم تفتیش کاروں کے ساتھ تعاون کرو گے تو تمھارے آزادی کے موقع زیادہ ہوں گے۔مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ریاض اس جیل سے نکل کر دوسری بڑی جیل میں جانے کا زیادہ ہی خواہشمند تھا۔لیکن بعد میں جب میں نے دوسرے قیدیوں سے ریاض کے متعلق بات چیت کی تو مجھے ایک بات کا اندازہ ہوا کہ ریاض ایک جاسوس تھا۔
میں دوسرے جس قیدی سے ملا وہ مصطفی تھا۔وہ 33سال کا تھا۔اس نے مجھے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہے اور اس کے دو چھوٹے بچے ہیں اور وہ پہلی مرتبہ جیل میں قید ہوا ہے۔وہ ہمیشہ سہما ہوا رہتا تھا اور اپنے بچوں کی فکر میں گم تھا۔وہ اپنے بچوں کے لئے شدت کے ساتھ پریشان اور فکر مند تھا۔
وہ اکثر کہتا تھا کہ کیا میرے بچے ٹھیک ہوں گے؟ آخر میں اس جیل میں کیوں ہوں؟میں اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا۔
میں نے اس کو سکون دینے کی کوشش کی اور کہا کہ مجھے یقین ہے کہ تمھارے بچے بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں گے اور خوش ہوں گے۔میں نے اس سے پوچھا کہ تم کتنے دن سے اپنے بچوں سے دور ہو؟اس نے جواب دیا: میں 9روز سے یہاں قید میں ہوں۔
میں نے کوشش کی کہ اس کو مزید تسلی دوں اور میں نے کہا کہ شاید ہم میں سے کچھ ایسے قیدی بھی یہاں پر ہوں کہ جو اپنے بچوں سے ۹ سال سے نہ ملے ہوں۔لیکن ہم اندازہ نہیں کر سکتے کہ ان کے دل پر کیا گزر رہی ہو گی۔ میں نے خیال کیا کہ میری الفاظ سے مصطفی کو کافی حد تک تسلی ملی۔
تیسرے جس قیدی سے میری ملاقات ہوئی وہ فادی تھا۔وہ 28سال کا تھا۔اور و ہ سیل مین کاکام کا کرتا تھا۔اسرائیلی جیل میں اس کا پہلا موقع تھا ۔اس نے زیادہ بات نہیں کی۔وہ کافی افسردہ تھا اور ہمیشہ خیالات اور سوچ میں گم رہتا تھا۔اس نے مجھے بتایا کہ اس کے گرفتار ہونے سے صرف تین روز قبل ہی رشتہ ہوا تھا اور وہ شادی کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔وہ بہت جذباتی ہو جاتا تھا اور اچانک سے رونا شروع کر دیتا تھا۔
اس نے مجھے بتایا کہ اس نے گذشتہ رات عبادات اور دعاؤں کی آوازیں سنی تھیں اور پھر میوزک کی آوز سنی تھی اور اس کی خواہش ہے کہ وہ یہ آوازیں دوبارہ سنے۔اس کو اندازہ تھا کہ عبادات اور میوزک کی آوزیں میری تھیں لیکن میں نے اس کو یہ بات نہیں بتایا کہ وہ میں تھا۔جب میں شام میں عبادت کر رہا تھا وہ میری آوازیں سن کر رویا کرتا تھا۔میں نے اس کو کچھ نہیں کہا،لیکن اس سے پہلے وہ مجھے لے جاتے،وہ کھڑا ہوا،مجھے گلے لگا لیا، اور میں نے اس سے کہاکہ تم بہت جلد آزاد ہو جاؤ گے اور میں تمھاری دکان پر فون خریدنے آؤں گا۔
چوتھا آدمی جو مجھے جیل میں ملا وہ یحیٰ تھا۔وہ 20سال کا تھا۔وہ ایک طاقتور اور مضبوط نوجوان تھا۔اسے اپنے بارے میں بات کرنا زیادہ اچھا لگتا تھا۔وہ پوری رات مجھے اپنی کہانیاں سناتارہتا تھا۔وہ کبھی بھی جیل کے چوکی داروں سے نہیں ڈرتا تھا اور ہمیشہ جیل کے قواعد کی خلاف ورزی کرتا تھا۔وہ کھانے کو مسترد کر دیتا تھا اگر کھانا اس کی مرضی کا نہ ہو۔اور جب اسے زیادہ بھوک ہوتی تو وہ مزید کھانا مانگ لیا کرتا تھا۔وہ میرے لئے کافی مدد گار رہا کیونکہ جب وہ کھانے کا مطالبہ کرتا تھا تو ہم دونوں کے لئے مانگا کرتا تھا۔
ایک دفعہ اس نے جیل کے ایک نگہبان سے چیخ کر بات کی جس کے بعد جیل کے فوجی اسے باہر لے گئے اور کئی گھنٹوں تک سزادیتے رہے۔یہ آخری وقت تھا جب میں نے اسے سیل میں دیکھا۔
بہر حال مجھ سے تفتیش جاری رہی حتیٰ کہ بیٹا تکوا کی عدالت سے میری قید کو دو مرتبہ مزید توسیع دی گئی۔جیل کے نگہبا ن مجھے ایک بڑے سیل میں لے گئے،میں نے تفتیش کے ختم ہونے پر ایک کاغذ پر دستخط کیا۔میں نے یہاں پر یحیٰ کو دوبارہ دیکھا اور مزید تین اور لوگوں عمار،احمد اور سامر سے ملاقات ہوئی۔
عمار کو سگریٹ پینے کا بہت شوق تھا جبکہ قید میں ہر قیدی کو دن میں دو سگریٹ دی جاتی تھیں۔کیونکہ میں سگریٹ نہیں پیتا تھا،اس لئے میں اپنی سگریٹ اس کو دے دیا کرتا تھا۔اس نے مجھے بتایا کہ اسے اسرائیل میں غیر قانونی طور پر کام کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔اس کے پاس باقاعدہ اجازت نہیں تھی ۔
احمد اپنی عمر کے حساب سے زیادہ جوان نطر آتا تھا۔وہ ہمیشہ ہنستا رہتا تھا اور ہمیں بھی ہنساتا تھا۔میرے لئے حیرت انگیز تھا کہ جب اس نے مجھے بتایا کہ وہ صرف انیس سال کا ہے اور دوسری مرتبہ قید کیا گیا ہے۔
سامر خاموش طبعیت انسان تھا اور ہمیشہ سوتا رہتا تھا۔اس نے مجھے بتایا کہ اسے معلوم نہیں ہے کہ اسے کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔حتیٰ کہ اس کی تفتیش ختم ہو چکی تھی لیکن اسے معلوم نہیں تھا۔
اس سیل میں موجود ہم سب مختلف شہروں سے آئے تھے۔یہ میرے لئے اچھا موقع تھا کہ میں اپنے ملک کے بارے میں زیادہ جان سکوں۔میں نے سب سے کہا کہ وہ مجھے اپنے اپنے علاقے کے بارے میں بتائیں۔رات کے وقت ہم سب ایک وقت میں سو تے تھے۔ہم ہمیشہ ساتھ ہی کھانا کھاتے تھے۔ہم ایک ساتھ نماز ادا کرتے تھے اور اللہ سے دعا کرتے تھے کہ یہاں سے جلد از جلد آزادی نصیب ہو۔
عمار نے ہمیں اپنے کام کے بارے میں بتایا جو و ہ اسرائیل میں کیا کرتا تھا۔اس کا کام بہت سخت تھاوہ کنسٹرکشن کا کام کیا کرتا تھا۔اس نے بتایا کہ اس کے والد ایک بوڑھے آدمی ہیں اور وہ اپنے خاندان کی کفالت کرتا تھا۔
یحیٰ ہمیشہ کہانیاں سنا تا رہتا تھا جن مین سے چند کہانیاں میں نے پہلی ملاقات میں سنی تھیں،اس نے فلسطین کے متعدد شہروں میں سفر کیا تھا اور اس کی کہانیاں مزے کی ہوتی تھیں۔احمد ہمیشہ ہمیں ہنساتا تھا جو کہ عمدہ کام تھا۔اس کے مذاق سن کر ہم بھول جاتے تھے کہ ہم قید میں ہیں۔وہ روزانہ صبح بیدار ہونے کے بعد کہا کرتا تھا کہ میں آج یہاں سے جا رہاہوں۔اور سونے سے پہلے وہ کہا کرتا تھا کہ شاید آج نہیں ،شاید کل میں جاؤں گا۔
سامر اپنا زیادہ وقت سو کر گزارتا تھا۔وہ کہتا تھا کہ سونے سے وقت اچھا گزر جاتا ہے اور محسوس نہیں ہوتا کہ کتنا وقت گزر گیا ہے۔وہ ہمیشہ مجھے گانے کے لئے کہا کرتے تھے اور میں ان کے لئے گانا گاتا تھا۔ایک رات سونے سے پہلے میں نے ان کو ایک کہانی سنائی جو میں نے کتاب میں پڑھی تھی اور وہ اس کہانی سے بہت خوش ہوئے۔میں ان کے درمیان ایک واحد یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ جیل کے فوجی آئے اور وہ یحیٰ اور احمد کو اپنے ساتھ لے گئے۔وہ رات ہم نے یحیٰ اور احمد کی کہانیوں اور لطیفوں کے بغیر گزاری۔یحیٰ نے ہم سے جدا ہونے سے پہلے کہا کہ شاید اب ہم لوگ جیل سے باہر ملاقات کریں۔
اگلے دن جیل کے نگہبان اچانک ہمارے سیل میں داخل ہوئے انہوں نے سخت قسم کے لباس پہن رکھے تھے اور فلیش لائٹس اٹھا رکھی تھیں۔ان میں سے ایک فوجی نے مجھے پکڑا اور میری جامعہ تلاشی لینے لگا ۔میرے لئے یہ بہت عجیب تھا لیکن جب میں سیل میں واپس آیا تو سامر اور عمار نے بتایا کہ ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہواہے۔میں نے دیکھا کہ ہمارے کمبل پھاڑ دئیے گئے تھے اور اس وقت کی حالت کافی عجیب منظر پیش کر رہی تھی۔
ہم خاموشی سے بیٹھ گئے ،نہیں جانتے تھے کہ کیا کریں؟ایک فوجی سیل میں داخل ہوا اور مجھے آواز دی۔میں حیران ہوا کہ وہ مجھے بلا رہے ہیں۔انہوں نے مجھے بتایا کہ اب تمھارا جانے کا وقت ہے۔میں نے عمار اور سامر کے چہروں کی طرف دیکھا وہ کافی پریشان اور مرجھائے ہوئے تھے۔ہم سب اس قید میں ایک خاندان کی طرح تھے۔میرے جانے کے بعد سیل اب تقریباً خالی ہی رہ گیاتھا۔
بہر حال میں نے ان سے کہا کہ ہم لوگ ایک دن ضرور ملیں گے اور بہت جلد ملیں گے۔یہ آخری موقع تھا جب میں نے ان کی طرف دیکھا اور پھر جیل کے نگہبان مجھے اٹھا کر لے گئے اور میرے ہاتھ پاؤں کو دوبارہ باندھ دیا گیا۔انہوں نے مجھے کار میں بٹھا دیا یہ اسی طرح کی کار تھی جس میں پہلی مرتبہ لایا گیا تھا۔مجھے معلوم تھا کہ میرے کورٹ جانے کی تاریخ میں ابھی دو دن باقی ہیں۔کچھ لمحوں بعد ہم رملہ کی جیل میں پہنچے۔یہ جیل ان قیدیوں کے لئے تھی جن کو عدالت میں بھیجا جاتا ہے یا تبادلہ کیا جاتا ہے۔اس جیل میں بہت سارے کمرے تھے۔یہ قیدیوں سے بھرے ہوئے تھے۔وہ مجھے ایک کمرے میں لے گئے۔یہ پہلی جیل کے کمرے سے کافی بہتر تھا۔یہاں بستر اور دیگر اشیاء موجود تھیں لیکن انتہائی خستہ حالت میں۔میں یہاں پر چار لوگوں کریم،امجد ،مجدی اور اس کے بھائی شوکری سے ملا۔
ہر ایک نے مجھے اپنی کہانی سنائی،کریم ایک چور تھا،وہ اسرائیل میں بغیر اجازت نامے کے داخل ہوا۔وہ اس وجہ سے ایک سے زائد مرتبہ گرفتار ہو چکا تھا۔چوری کے منصوبے کے دوران اس نے ایک خاتون کو زخمی کیا تھا۔اس وقت و ہ سزائے موت کا انتظار کر رہاتھا۔میں انتہائی حیرت زدہ تھا کہ فلسطینی اس جرم میں بھی اسرائیلی قید میں موجود ہیں۔
امجد ایک ہائی اسکول کا طالب علم تھا اور دو ماہ بعد اس کے امتحان ہونے والے تھے۔وہ امتحانات کے بعد یونیورسٹی جانے کے خواب دیکھ رہا تھا لیکن اسرائیلی فوجیوں نے اسے بغیر کسی جرم و خطا کے گرفتار کر لیا تھا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ اسے کب چھوڑا جائے گا۔اس کے الفاظ نے مجھے پریشان کیا کیونکہ اسی طرح کی دھمکیاں مجھے بھی دی جا چکی تھیں۔
مجدی نے مجھے بتایا کہ اس کو قید میں سترہ برس ہو چکے ہیں۔اس مرتبہ وہ اپنے بھائی شوکری اور بہن رعنا کے ساتھ گرفتار ہوا ہے۔رعنا خواتین کی جیل میں تھی۔ہر کوئی یہ بات جانتا تھا کہ ان لوگوں کو اس لئے گرفتار کیا گیا ہے کہ وہ قیدیوں کی مدد کرتے تھے۔یہ واضح تھا کہ مجدی نے زندگی کا زیادہ عرصہ جیل سے باہر نہیں گزرا تھا۔
میں نہانے گیا اور آ کر بستر پر سو کر آرام کرنے لگا۔مجدی نے مجھ سے پوچھا ،کیا تم بوسٹا سے آئے ہو یہاں آتے ہوئے؟میں نے کہا میں نہیں جانتا۔تب اس نے کہا کہ تم جلدی سو جاؤ کیونکہ صبح تم کو جلدی جگایا جائے گا اور کل کا دن تمھارے لئے سخت اور لمبا ہو گا۔اس نے مجھے بتایا کہ بوسٹا ایک بڑی بس کا نام ہے جس میں قیدیوں کو دوسری جیلوں سے لایا جاتا ہے۔اس نے کہا کہ کل بوسٹا مجھے دوسری جیل میں لے جائے گی اور پھر وہاں سے عدالت لے جایا جائے گا۔مجھے اس وقت بہت خوشی ہوئی جب مجدی نے بتایا کہ عدالت میں ،میں اپنے ماں باپ کو دیکھ پاؤں گا۔
اس رات کو میں سونے کی کوشش کر رہا تھا اور میں نے دیوار پر کچھ الفاظ لکھے دیکھے۔کچھ قیدیوں کے دستخط اور تاریخیں لکھی ہوئی تھیں۔یہ سیل بہت سے لوگوں کے لئے استعمال ہو چکا تھا۔ایک لکھنے والے نے لکھا تھا ’’میں اپنی ماں کو بہت یاد کر رہا ہوں‘‘۔ایک اور نے لکھا ہوا تھا،میں غلط تھا۔آزادی فلسطین کے لئے ہے۔جیل کے گارڈ مجھے نہیں ڈرا سکتے۔ان تمام تحریروں کو پڑھنے کے بعد میں ان لکھنے والوں کے بارے میں سوچنے لگا۔وہ قید میں آزادی کے خواب دیکھتے تھے۔میں نے سوچا کہ خواب ایک نہ ایک دن ضرور پورا ہوگا۔میں نے زمین پر دیکھا کچھ کیڑے مکوڑے گھوم رہے ہیں۔بہر حال میں کیڑے مکوڑوں کو پسند نہیں کرتا۔ میں سونے کی کوشش کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کل میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
اگلے روز جیل کے نگہبانوں نے ہمیں سورج نکلنے سے پہلے ہی جگا دیا اور کہا کہ جانے کا وقت ہو چکا ہے۔ہم لوگ تیار ہوئے اور نگہبانوں نے ہمیں باندھ دیا اور لے گئے۔اور انہوں نے ہمیں کھانے کے لئے کچھ دیا جبکہ ہم کیسے کھا سکتے تھے ہمارے ہاتھ باندھ دئیے گئے تھے۔میں نے ایک بڑی بس دیکھی اور مجدی سے پوچھا کہ کیا یہ بوسٹا ہے؟اور اس نے ہاں میں جوا ب دیا۔لیکن یہ تو عام بس کی طرح ہے میں نے مجدی سے کہا۔وہ مسکرایا اور کہا کہ تم نے ابھی تک کچھ بھی نہیں دیکھا۔ایک گارڈ بوسٹا کے دروازے پر کھڑا ہوا تھا۔اس کے ہاتھ میں کافی ہتھکڑیاں تھیں۔وہ ہر قیدی کے ہاتھ پاؤں باند ھ کر بس میں بھیج رہا تھا۔جب میرا نمبر آیا تو میں حیران رہ گیا۔بس کے اندر سے وہ سب نظر نہیں آ رہا تھا جو باہر سے تھا۔یہ صورت حال انتہائی حیرت انگیز تھی۔
تمام نشستیں لوہے کی بنائی گئی تھیں اور زیادہ دیر تک بیٹھنے کے قابل نہ تھیں۔بوسٹا جس طرح باہر سے نظر آتی تھی اس طرح اندر سے صاف ستھری نہیں تھی۔بس کے اندر اوپر کی طرف چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں تھیں جہاں سے دیکھنے کے لئے کھڑے ہونا پڑتا تھا۔یہ ایک لوہے کے پنجرے کی مانند تھا۔بس کا دروازہ بند ہوا اور جیل کے نگہبان بیٹھ گئے۔بوسٹا قیدیوں سے بھر چکی تھی۔میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔مجدی اور اس کا بھائی میرے سامنے بیٹھے تھے۔اور ایک بوڑھا آدمی میرے پیچھے کی طرف بیٹھا تھا۔مجدی نے مجھے بتایا کہ ہمارا یہ سفر آٹھ یا نو گھنٹوں کا ہو گا۔میں نے اس سے پوچھا!میں اس کار میں کیوں نہیں گیا جس میں پہلی مرتبہ لایا گیا تھا؟اس نے جواب دیا کہ یہ قیدیوں کو سزا دینے کا ایک حصہ ہے۔
ایک اسرائیلی فوجی بس کے اندر آیا اور اس نے ہمارے نام چیک کئے اور دروازہ بند کر دیا۔اس کے بعد ہر کوئی ایک دوسرے سے بات کرنے لگا۔ہم میں سے کچھ قیدی دوسری جیل منتقل کئے جا رہے تھے جبکہ کچھ میری طرح عدالت لے جائے جا رہے تھے اور کچھ کو اسپتال لے جایا جا رہا تھا۔جب قیدیوں نے محسوس کیا کہ میں ان کے درمیان نیا قیدی ہوں تو سب نے مجھ سے بات چیت کرنا شروع کر دی۔
صالح کو عدالت سے واپس لایا جا رہا تھا۔یہ اس کی قید کا نواں موقع تھا اور وہ چار سال سے اسرائیلی قید میں تھا۔ہر مرتبہ وہ جیل سے رہا ہوا،لیکن اس کے بعد بہت جلد گرفتار کر لیا گیا۔ایک اور قیدی جس سے میں ملاوہ موسیٰ تھا۔اس کو سزائے موت ہو چکی تھی۔وہ اسپتال سے واپس لایا گیا تھا میڈیکل چیک اپ کے بعد۔وہ پر اعتماد لہجہ میں بات کر رہا تھا۔موسیٰ نے ایک کہانی بتائی جو ناصر کے بارے میں تھی اسے معلوم نہیں تھا کہ ناصر میرا دوست تھا۔ناصر کو سات سال پہلے گرفتار کیا گیا تھاجب وہ پندرہ سال کا تھا۔اسے بیس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔موسیٰ نے بتایا کہ ناصر کے خاندان پر سفر کرنا ممنوع ہے اور وہ کہیں نہیں جا سکتے۔میں نے موسیٰ سے کہا کہ جب تم کبھی ناصر سے ملو تو اسے بتانا کہ میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں۔
میرے پیچھے بیٹھا ہوا بوڑھا شخص خاموش تھا وہ کسی سے بات نہیں کر رہا تھا۔میں نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے جواب نہیں دیا۔میری کمر میں بس کی نشستوں کی وجہ سے درد شروع ہو چکا تھا۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ بوڑھا آدمی کس طرح برداشت کر رہاتھا۔بوسٹا ایک جیل کے پاس رکی۔فوجیوں نے دروازہ کھولا اور کچھ قیدیوں کو لے کر باہر چلے گئے۔
جاری ہے۔۔۔