تحریر: صابر کربلائی
ریسرچ اسکالر
در اصل بظاہر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فلسطین اور اسرائیل کے مابین ایک تنازع ہے ۔اور یہ تنازع چونسٹھ برس سے چلا آ رہا ہے۔اسرائیل جس نے ہمیشہ مظلوم اور نہتے فلسطینی مسلمانوں اور انسانوں کاخون پانی کی طرح بہایا ہے اور بہاتا چلا آ رہا ہے جبکہ گذشتہ برس ماہ نومبر میں آٹھ روز تک اسرائیل نے جس بربریت اور دہشت گردی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال شاید اس سے پہلے تاریخ میں نہیں ملتی۔یعنی ایک طرف غز ہ پر حملہ کیاا ور دنیا میں واویلا مچایا کہ فلسطینیوں نے اسرائیل پر حملہ کیا ہے اور دوسری طرف جدید سے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس صیہونی فوجیوں کو کھلی آزادی دے دی کہ جس کو چاہیں جیسے چاہیں قتل کر دیں۔یہی وجہ ہے کہ ماہ نومبر میں غزہ پر ہونے والے اسرائیلی حملے اور آٹھ روزہ یکطرفہ جنگ میں سیکڑوں معصوم فلسطینی شہری شہید ہوئے اور سیکڑوں ہی زخمی ہوئے۔غاصب صیہونی افواج نے جدید اسلحہ او ر گولہ بارود کی مدد سے فلسطینی مکانات،عمارتوں اور اسپتالوں سمیت اسکولوں اور دیگر اہم مقامات کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا اور خون کی ہولی خوب کھیل لیا۔
غزہ میں آٹھ روزہ اسرائیلی مسلط کردہ یکطرفہ جنگ میں اسرائیل نے جس چیز سے انسانیت کا قتل عام کیا وہ ہے،اسلحہ! یعنی ہتھیاروں اور جدید ہتھیاروں کی مدد سے معصوم انسانوں کا خون بلکہ خون کی ندیاں بہائیں۔یہ وہی اسلحہ ہے جو صرف فلسطین میں قتل عام کے لئے استعمال نہیں کیا جا رہابلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی اسرائیلی گماشتے موجود ہیں وہاں بھی اسی اسلحے کے زور پر معصوم اور نہتے انسانوں کا قتل عام کیا جا رہاہے ۔اس حوالے سے اگر ہم پاکستان کی مثال پیش کریں تو یہ بات بے جا نہ ہو گی۔کیونکہ خود پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک نے اس بات کا اعتراف ذرائع ابلاغ کے سامنے کیا ہے کہ پاکستان بھر میں دہشت گردی کے لئے جو اسلحہ استعمال کیا جا رہاہے وہ اسرائیلی اسلحہ ہے۔
یہ تو بات ہے اسرائیل کی کہ جس کی تاریخ ہی مظلوم انسانوں کے قتل عام کے بعد خون سے لکھی گئی ہے۔جی ہاں! سنہ 1948ء سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود عمل میں آنے کے بعد آج سنہ 2012ء تک اسرائیل نے صرف اورصرف فلسطینی عوام کا قتل عام کیا ہے اور ایسے ایسے انسانیت سوز مظالم کی تاریخ رقم کی ہے جس پر انسانیت کی روح کانپ اٹھتی ہے۔اسرائیل نے دنیا بھر میں لاگو ہونے والے عالمی قوانین کا شیرازہ بکھیرنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کے بنیادی حقوق بھی سلب کئے ہیں اور ان کو اپنی زمینوں سے بے دخل بھی کیا ہے۔اسی طرح غزہ پر پانچ سال تک غیر قانونی محاصرہ جاری رکھا جس کی وجہ سے پندرہ لاکھ سے زائد انسانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں۔
اسرائیلی خون خواری اور دہشت گردی کی کئی بڑی مثالیں تاریخ میں موجود ہیں،سرحدوں کے پار جنگ چھیڑنا ہو،یا سرحد وں کے اندر دہشت گردانہ کاروائی کرنی ہے،یا پھر بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنا ہوان سب معاملات میں اسرائیل سر فہرست پایا جاتا ہے۔
اسرائیل ایک ایسا دہشت گرد اور درندہ ہے جو براہ راست انسانیت کی شہہ رگ کاٹنے میں لگا ہوا ہے ۔لیکن اس کے پس پردہ ایک اور عالمی دہشت گرد بھی موجود ہے جو اس درندہ اسرائیل کا پشت پناہ بھی ہے اور ہر برے کام میں برابر کا حصہ دار بھی۔یہ وہ عالمی دہشت گرد ہے جس نے خود کو دنیا میں انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والا علمبردار بنا کر پیش کر رکھا ہے ۔یہ وہ عالمی دہشت گرد ہے جو پوری دنیا میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر کڑ ی نظر رکھتا ہے لیکن دوسری جانب اسرائیل کو انسانیت کی دھجیاں اڑانے کا لائسنس جاری کرتا ہے۔نہ صرف لائسنس بلکہ کھلم کھلا اسرائیل جیسے درندہ اور دہشت گرد حکومت کو کہتا ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھو اور ان کے تمام حقوق سلب کر لو۔
جی ہاں ! یہ عالمی دہشت گرد کوئی او ر نہیں 146146امریکہ145145 ہے۔
سنہ 2006ء میں جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو یہ امریکہ تھا جس نے اسرائیلی حملے کو قانونی حق بتاتے ہوئے لبنان میں معصوم انسانوں کے قتل عام کو اسرائیل کا جائز حق قرار دے کر انسانیت اور انسانی حقوق کے منہ پر زور دار تھپڑ رسید کیا تھا۔اسی طرح سنہ 2008ء مین جب فلسطین کی غزہ پٹی میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کو عام انتخابات میں بڑی اور واضح کامیابی ملی تو یہی عالمی دہشت گرد امریکہ تھا کہ جس نے انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے غزہ پر اسرائیلی حملے کی حمایت کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اسرائیل کا جائز حق قرار دیا تھا۔واضح رہے کہ اسرائیل کے ان دونوں دہشت گردانہ حملوں میں بالترتیب لبنان میں 33روز تک اور غزہ میں22روز تک جنگ جاری رہی تھی ۔ان دونوں جنگوں کے نتیجے میں لبنان او ر غزہ میں سیکڑوں معصوم انسانوں کا قتل عام کیا گیا اور اسے اسرائیل کا جائز حق قرار دیا جاتا رہا۔اسی طرح ماضی میں جائیں تو صبرا اور شتیلا کے مہاجر کیمپوں پر اسرائیلی بربریت کی داستان انسان کے دل کو درد سے تڑپا دیتی ہے۔
حالیہ دور میں بھی غزہ پر جب اسرائیلی حملہ شروع کیا گیا تو امریکہ (نام نہاد چیمپئن برائے حقوق انسانی) نے پہلے روز سے ہی صیہونی درندگی کی حمایت کا بیڑا اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا اور غزہ میں ایک سو پچاس سے زائد معصوم اور نہتے خواتین اور بچوں کے قتل اور پندرہ سو سے زائد کے زخمی ہونے کو اسرائیل کا دفاعی حق قرار دے کر ایک مرتبہ پھر انسانیت اور حقوق انسانی کے منہ پر زور دار تھپڑ رسید کر دیا۔
سونے پر سہاگہ دیکھئے!13دسمبر 2012ء کو اسرائیلی اخبار میں ایک رپورٹ سامنے آئی ہے کہ جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اسرائیل کو $647 ملین ڈالر کا اسلحہ فراہم کیا جائے گا تا کہ وہ غزہ میں اپنی ایک اور ذلت آمیز شکست کا دوبارہ سے بدلہ لینے کے قابل ہو سکے۔کیونکہ تاریخ نے مشاہدہ کیا ہے کہ غزہ پر مسلط کی جانے والی اسرائیلی جنگ میں اسلامی مزاحمتی تحریکوں حماس اور جہاد اسلامی نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا کر ذلت و رسوائی کی طرف دھکیل دیا ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ غزہ کی آٹھ روزہ جنگ میں اسرائیل کی ذلت آمیز شکست رسوائی در اصل امریکہ کی ذلت و رسوائی ہے۔کیونکہ امریکی عہدیدار روز اول سے اسرائیل کے غزہ پر حملے کو اس کا حق قرار دے رہے تھے لیکن جب اسلامی مزاحمتی تحریکوں کی جانب سے جوابی کاروائیوں کا سلسلہ شروع ہو تو اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب اور کئی ایک شہر مجاہدین کے نشانے پر آ گئے ۔یہی وجہ بنی کہ اسرائیل پسپائی کا شکار ہوا اور مجاہدین فتح و کامرانی سے ہمکنار ہو گئے۔
غزہ میں آٹھ روزہ اسرائیلی مسلط کردہ یکطرفہ جنگ میں ذلت آمیز شکست اور رسوائی کا بدلہ لینے کے لئے امریکی شعبہ دفاع نے کانگریس میں ایک رپورٹ جمع کرواتے ہوئے بتایا ہے کہ امریکہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو $647 ملین ڈالر کا اسلحہ دے گا جس میں 6900بم کٹ ہوں گی جو کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے چلائی جائیں گی جبکہ ان میں ایسی صلاحیت موجود ہو گی کہ بم سے کسی بھی وقت چھوٹے ہتھیار میں تبدیل کر دیا جائے گااور یہ سارا آپریشن سیٹلائٹ کے ذریعے انجام دیا جائے گا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ ان ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ غاصب اسرائیل کو دس ہزار بم بھی دے گا جس میں ,725 BLU-109 bunker-buster bombs, 3,450 GBU-39 bunker-buster bombsاور 3,450 ایسے بم دئیے جائیں گے جو ایک ٹن سے زیادہ وزنی ہوں گے۔اور 1725ایسے بم دئیے جائیں گے جن کا وزن 250کلو گرام ہو گا۔
یہ رپورٹ اسرائیل کے ایک معروف روز نامے نے بھی شائع کی ہے اور کہا ہے کہ امریکہ اسرائیل کو یہ اسلحہ اس لئے فراہم کر رہاہے کہ غزہ پر آٹھ روزہ جنگ میں اسلحہ کے استعمال کے باعث اسرائیلی اسلحہ خانوں میں اسلحہ کی قلت کا خدشہ لاحق ہو چکا ہے۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ غزہ پر مسلط کردہ اسرائیلی جنگ کے دوران امریکی صدر باراک اوبامہ نے متعدد مرتبہ اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکہ اسرائیل کی بھرپور مدد کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔حتیٰ کہ جب غزہ میں جنگ بندی کا عمل شروع ہوچکا تو تب بھی امریکی صدر اوبامایہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مزید فوجی معاہدے کریں گے اور اسرائیلی افواج کو مزید ٹیکنالوجی سمیت اسلحہ فراہم کریں گے۔یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ غاصب اسرائیل کو وائٹ ہاؤس سے 3بلین ڈالر سالانہ امداد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔کیا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ امریکہ کی جانب سے غاصب اسرائیل کو دیا جانے والا ہولناک اسلحہ دنیا میں امن کے قیام کا باعث بنے گا یا مزید مظلوم انسانیت کے خون کی ندیاں بہانے کا باعث بنے گا۔
واضح رہے کہ غزہ پر مسلط کی جانے والی آٹھ روزہ جنگ میں ایک سو ساٹھ کے قریب فلسطینی شہید اور پندرہ سو کے لگ بھگ زخمی ہوئے تھے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کے خون کو کس کے ہاتھوں پر تلاش کیا جائے؟ کیا اسرائیل کے ہاتھوں پر جو واضح طور پر براہ راست فلسطینیوں کا خون بہا رہا ہے؟ کیا امریکہ کے ہاتھوں پر فلسطینیوں کا خون تلاش کیا جائے کہ جو انسانی حقوق کا دم بھر کر انسانیت کا بد ترین قتل عام کرنے میں ملوث ہے؟یا ان عرب حکومتوں کی طرف دیکھا جائے کہ جو غلامی کی زنجیریں پہنے امریکی و اسرائیلی مفادات کی خاطر بچھی جا رہی ہیں۔۔۔آخر ان مظلوم فلسطینیوں کا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کیا جائے؟ فیصلہ آپ کریں ،سوچیں اور اپنی نسلوں کو آگاہ کریں کہ کیا یہ انصاف کے تقاضے ہیں؟کیا دنیا کی تمام حکومتوں اور انسانوں نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے ؟ اگر نہیں تو پھر ایک آواز ہو کر انسانیت کی بقا کے لئے انسانیت کے دشمن امریکہ اور اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہونا ہو گا،اس سے پہلے کہ وقت گزر جائے ۔
کیونکہ ہماری دنیا میں قاتل بھی وہی اور منصف بھی وہی ہے اور محتسب بھی وہی ہے۔لیکن اس کے بر عکس اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ زمین کامالک مستضعفین کو بنائے گا۔اور اللہ کا وعدہ یقیناًدنیا کی شیطانی قوتوں کو ملیا میٹ کر دے گا۔انشاء اللہ تعالیٰ
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا