تحریر: ناصر پور حصہ آخر
:معترض سوشیولوجسٹس
مغربی دنیا کی طرف سے ہمیشہ یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اسرائیل مشرق وسطی کا اکلوتا جمہوری نظام ہے۔ معترض سوشیولوجسٹس، پوسٹ صہیونیستوں کا ایسا گروہ ہے جو اسرائیل کے سیاسی نظام کی جمہوری بنیادوں کو رد کرتے ہوئے اس رڑیم میں موجود عظیم طبقاتی اور نسلی فاصلوں پر توجہ دیتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے 1970ء کی دہائی کی ابتدا میں جب راکھ میں چھپی ثقافتی اور معاشرتی ناراضگی اور دشمنی کی آگ محروم یہودی معاشرے مخصوصاً شمالی افریقا سے آنے والے یہودیوں کو گوشہ گیر کرنے کی خاطر حکومتی شرارتوں کے خلاف ایک اعتراض کی صورت میں بھڑک اٹھی تو جوان اور متحرک سیاہ پوست سیاسی حوالے سے سرگرم عمل ہو گئے اور "سیاہ چیتوں کی تحریک” کی بنیاد رکھی۔ اس تحریک کے طرفداروں نے علمی محافل میں اس کے معرض وجود میں آنے کی ریشہ یابی اور معاشرتی اور سیاسی بے انصافیوں کا مطالعہ شروع کر دیا۔ معترض سوشیولوجسٹس نے جدید مورخین کی طرح گذشتہ 30 سالوں کا گہرائی میں مطالعہ کیا اور اسکو تجزیہ و تحلیل کیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اسرائیلی معاشرہ ایک ایسا نابرابر معاشرہ ہے جس میں حتی خود یہودیوں کے درمیان طبقاتی فاصلے موجود ہیں۔انہوں نے اسرائیل کی آزادی کے نام سے ایک بیان جاری کیا۔ اس بیان میں جو 14 مئی 1948ء کو بن گورین کے توسط سے پڑھا گیا یہ واضح کیا گیا کہ اسرائیل اپنے تمام شہریوں کی معاشرتی اور سیاسی برابری کو بغیر کسی مذہبی، نسلی اور جنسی امتیاز کے پورا کرے گا۔ لیکن ساتھ ہی اس نے کئی بار یہ تذکر دیا کہ اسرائیل ایک یہودی ریاست کے طور پر برقرار رہے گا۔ پوسٹ صہیونیزم کا ایک معترض سوشیولوجسٹ اس بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آیا ایسا ممکن ہے کہ ایک حکومت ایک ہی وقت میں یہودی بھی ہو اور جمہوری بھی؟۔ اس کے خیال میں چونکہ اسرائیل صرف یہودیوں کو قبول کرتا ہے لہذا وہ جمہوری نہیں ہو سکتا۔
ایسا ملک جس کی بنیاد نسلی امتیاز پر ہو وہ ملک نسل پرست ہو گا۔ باروخ کیمرلنگ ایک اور معترض سوشیولوجسٹ 1983ء میں چھپنے والی اپنی کتاب "صہیونیزم اور سرزمین: صہیونیستی پالیسیوں کا معاشرتی سرزمینی پہلو” میں اسرائیل کی حکومت کی تشکیل کی استعماری نظریہ کے مطابق وضاحت کرتا ہے۔ اسکے مطابق اسرائیل استعماری دنیا سے مربوط ہے جسکا ہدف سفید پوستوں کی طاقت کو ان علاقوں میں بڑھانا ہے جہاں وہ موجود نہیں ہیں۔ گرسٹن شیفر، ایک اور معترض سوشیولوجسٹ کہتا ہے کہ یہودیوں نے نقل مکانی کو بڑھا کر اور اسکو صہیونیستی نظریات کے ساتھ شامل کر کے اعراب کے استعمار کا زمینہ فراہم کیا ہے۔ اسکے مطابق 1905ء میں مشرقی یورپ سے یہودیوں کی بڑی تعداد بہتر کام کی تلاش میں فلسطین آئی۔ انہوں نے اپنے سرمایہ کے ذریعے عربوں کی خدمات حاصل کیں اور بعد میں ایک جانبی مسئلے کے طور پر جغرافیائی حدود اور اسرائیلی حکومت کے قیام کا مسئلہ منظر عام پر آیا۔ لہذا وہ یہودیوں کی فلسطین کی طرف نقل مکانی کو صہیونیزم کے کسی مذہبی انگیزے کے تحت نہیں سمجھتا بلکہ صرف استعماری اور اقتصادی مفاد پرستی کی نگاہ سے اس کا جائزہ لیتا ہے۔
پوسٹ صہیونیزم کے کچھ دوسرے سوشیولوجسٹس مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے اعراب اور یہودیوں کے درمیان طبقاتی فاصلوں کو استعمار کی تھیوری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انکی نظر میں وہ اعراب جنکی تعداد 12 لاکھ سے زیادہ ہے یہودیوں کی بغل میں ایک کالونی کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ وہ گوشہ نشین ہیں اور اسرائیل کے اقتدار کے ڈھانچے میں انکا کوئی کردار نہیں ہے۔ چونکہ اسرائیل میں شہری حقوق آرمی سروس کے بعد فراہم کئے جاتے ہیں اور اعراب کو آرمی سروس کا حق حاصل نہیں ہے لہذا وہ اہم معاشرتی حقوق جیسے نوکری سے محروم ہیں۔ اس وجہ سے مقبوضہ فلسطین میں مقیم یہودیوں اور اعراب کے درمیان گہرے طبقاتی فاصلے وجود میں آ گئے ہیں۔
پوسٹ صہیونزم سوشیولوجسٹس کے نزدیک ایک اہم موضوع سفاردیوں اور اشکنازیوں کے درمیان گہرے طبقاتی فاصلے ہیں۔ سفاردی ایسے یہودیوں کو کہا جاتا ہے جو افریقا، ایشیا یا مشرقی یورپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اشکنازی وہ یہودی ہیں جو مغربی یورپ سے اسرائیل گئے ہیں۔ اسرائیل کے مقامی یہودیوں کو صبرا کہا جاتا ہے۔ صہیونیستی نظریات کے مطابق سفاردی یہودی پس ماندہ ہیں جبکہ اشکنازی یہودی تہذیب یافتہ سمجھے جاتے ہیں۔ اہل اسرائیلی صحافی سفاردی یہودیوں کے بارے میں کہتا ہے: "یہ ایسے افراد ہیں جو انتہائی عقب ماندہ ہیں اور انکی معلومات جہالت اور نادانی کی حد تک ہیں۔ بلکہ وہ ہر قسم کے عقلانی امور کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ایسے یہودی دین یہود میں بھی اصیل نہیں سمجھے جاتے کیونکہ وہ بالکل بدتہذیب اور وحشی ہیں”۔ بن گوربن نے بھی سفاردی یہودیوں کے بارے میں کہا تھا: "سفاردی یہودی کسی اور زمانے سے آئے ہیں جب ترقی نہیں ہوئی تھی۔ وہ قرون وسطی سے تعلق رکھتے ہیں۔ آیا ہم ان مہاجرین کو مہذب کر سکتے ہیں؟”۔ سفاردی یہودیوں کی عقب ماندگی کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ 1970ء کی دہائی کے آخر تک مختلف طریقوں سے اسرائیل کی
کتابوں اور اخباروں میں بیان کیا جاتا تھا۔ فلسطین کے معروف شرق شناس :ایڈورڈ سعید اس بارے میں لکھتے ہیں
"صہیونیستی نظریات میں سفاردی ثقافت کو ایک جامد اور منفی ثقافت کے طور پر پیش کیا گیا جو یورپ میں زندگی اور ثقافتی چہل پہل کے ختم ہونے کے انتظار میں مصروف ہے”۔ صہیونیزم کے بانیان فلسطین کو ایک خالی سرزمین سمجھتے تھے جو اپنے اندر تبدیلیوں کیلئے یہودیوں کی فعالیت کی منتظر تھی۔ وہ عرب یہودیوں کو ایک خالی برتن کی مانند سمجھتے تھے جو صہیونیستی روح کے منتظر تھے۔ پوسٹ صہیونیزم سوشیولوجسٹس کی تحقیقات ظاہر کرتی ہیں کہ سفاردیوں اور اشکنازیوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ موجود ہے۔ اس نابرابری کے آثار تعلیمی نصاب، اشعار، موسیقی اور مختلف قسم کی محافل میں نظر آتے ہیں۔ وہ اقتدار کے میدان میں مخصوصا حکومتی عہدوں جیسے صدارت، وزارت عظمی، دوسری وزارتیں اور فوجی عہدوں کوئی جگہ نہیں رکھتے۔ پوسٹ صہینیزم سوشیولوجسٹس کی طرف سے ایک بہت بڑا اعتراض اسرائیلی کی فوجی ماھیت پر کیا جاتا ہے۔ ایک ایسے سوشیولوجسٹ جس کے بارے میں دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ ڈموکریٹک ہے کی نظر میں اسرائیل کی فوجی اور جارحانہ ماھیت اس بات کا باعث بنی ہے کہ معاشرے کی سب سے پہلی ترجیح "سیکورٹی” ہو اور دوسرے معاشرتی مسائل اگلی ترجیحات میں شامل ہوں۔ باروخ کیمرلنگ اور یونتھن سٹپیرو اسرائیل کو ایک قدرت طلب اور ڈکٹیٹر ریاست قرار دیتے ہیں۔ پروفیسر زمرمین اسرائیلی معاشرے کو نازیوں سے موازنہ کرتا ہے اور لکھتا ہے: "ہم میں سے ہر فرد کے اندر ایک بھوت سوار ہے اور اگر ہم اسی طرح اپنے اعمال کی توجیہ کرتے رہے تو یہ بھوت مزید بڑا ہو سکتا ہے۔ یہودی قوم کا ایک حصہ ایسا ہے جس کو میں پورے یقین کے ساتھ نازی جرمنوں سے تشبیہ دے سکتا ہوں
یہودی بستی ہبرون(الخلیل) کے بچوں کو دیکھ لیجئے۔ وہ بالکل ہٹلر کے زمانے کے جوانوں جیسے ہیں۔ بچپن کے زمانے سے انہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ تمام اعراب اور غیریہودی ہمارے دشمن ہیں۔ اس طرح ان میں ایک قسم کی بے اعتمادی وجود میں آ چکی ہے۔ وہ خود کو بہتر نسل سمجھتے ہیں اور یہ وہی احساس ہے جو ہٹلر کے زمانے کے جوانوں میں پایا جاتا تھا”۔ کنسٹ کے ممبران کا ماضی دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب ایک زمانے میں فوج کا حصہ تھے۔ اسکے علاوہ اسرائیلی رڑیم وہ اکلوتی رژیم ہے جہاں خواتین پر بھی ملٹری سروس لازمی ہے۔
:پوسٹ صہیونیزم، معاشرے کی سطح پر
پوسٹ صیہونیزم 1980ء کی دھائی میں علمی محافل سے عبور کر گیا اور شعر، فلم، ناول، موسیقی اور تھیٹر تک پہنچ گیا۔ سب سے پہلی فلم جو پوسٹ صہیونیست سوچ کے ساتھ بنائی گئی فلسطین پر اسرائیلی قبضے اور وہاں سے فلسطینیوں کے اخراج کے بارے میں رام لوی کے ذریعے فلمائی گئی۔ اس فلم کو سینما کے پردے پر آنے کی اجازت نہ مل سکی لیکن لوی نے 1986ء میں اپنی دوسری فلم "میں احمد ہوں” کے نام سے بنائی۔ اس فلم میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلیوں کے رویے کو دکھایا گیا تھا۔ دوسری پوسٹ صہیونیزم فلموں میں امس گیٹائی کی فلم "شعر” اور ڈیوڈ بن شربٹ کی فلم "جلاوطنی کا دوسرا رخ” شامل ہیں۔ پہلی فلم میں فلسطینیوں کے گھر پر صہیونیستوں کا قبضہ دکھایا گیا ہے اور دوسری فلم میں تین جلاوطن فلسطینی خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ 22
قسطوں پر مشتمل ایک سیریل "تکوما” [نئی اٹھان] جو فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی پچاسویں سالگرہ پر بنائی گئی ہے پوسٹ صہیونیستوں کی طرف سے کئے گئے اعتراضات کو بہت اچھے انداز میں پیش کرتی ہے۔ 1982ء میں لبنان پر اسرائیل کے حملے کے بعد پوسٹ صہیونیزم شعر میں بھی نظر آنے لگا اور اسرائیل کے جنگ طلبانہ رویے کے خلاف بہت سے پوسٹ صہیونیزم شعراء نے اپنے اشعار پیش کئے۔ ناول نویسی ایک اور میدان تھا جس میں پوسٹ صہیونیست اپنا پیغام پہنچانے کیلئے سرگرم عمل ہو گئے۔ کچھ پوسٹ صہیونیستوں نے مصر اور فلسطینی مصنفین کے ناولز کو عبری زبان میں ترجمہ کیا۔ 1989ء میں "ابراہیم فوج میں واپس آ جاتا ہے” کے نام سے ایک پوسٹ صہیونیست کے ناول کے مطابق سٹیج شو پیش کیا گیا۔ اس سٹیج شو میں فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے وقت اسکی اعلان کردہ پالیسیوں کا جرمن نازیوں کی پالیسیوں سے موازنہ کیا گیا تھا۔ صہیونیستی حکومت نے اس سٹیج شو پر پابندی لگا دی۔ 1990ء کی دہائی میں پوسٹ صیہونیزم مقالات بھی اسرائیلی اخباروں پر چھپنا شروع ہو گئے اور اخبارات مختلف پوسٹ صہیونیست پروگرامز میں بیان کئے گئے مطالب کو چھاپنا شروع ہو گئے۔ حزب اللہ لبنان کے ساتھ 33 روزہ جنگ اور حماس کے ساتح 22 روزہ جنگ میں اسرائیل کو سنگین شکست کا سامنا کرنے کے بعد قومی سلامتی کا مسئلہ ایک بار پھر اسرائیل کیلئے پہلی ترجیح بن چکا ہے۔ اسی وجہ سے پوسٹ صہیونیزم نظریات جو آہستہ آہستہ علمی محافل سے معاشرے میں سرایت کر رہے ہیں مختلف قسم کی پابندیوں اور محدودیتوں سے دوچار ہوئے ہیں۔
:نتیجہ گیری
رڑیم صہیونیستی جو سیاسی صیہونیزم کے نظریات کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی، نے معاشرے میں فلسطین پر اپنے قبضے کے بارے میں ایک خاص سوچ کو حاکم کیا۔ 1980ء کی دہائی کے آغاز تک یہ سوچ اسرائیلی عوام میں مقبول رہی۔ اس سوچ کا غلط اور جعلی ہونا خطے کے مسلمانوں کے نزدیک شروع سے ہی ثابت شدہ تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اور 1948ء سے 1950ء تک مربوط دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے صہیونی حکام اور فوجیوں کی جارحانہ اور جاہ طلبانہ ماھیت سب پر حتی اسرائیلی شہریوں پر واضح ہو گئی جو پوسٹ صہیونیزم کے ایجاد ہونے کا باعث بنی۔ اگرچہ اس نئے گروپ نے اپنے گہرے مطالعات کے ذریعے مقبوضہ فلسطین کے مکینوں کے درمیان عدم مساوات اور فلسطینیوں پر صہیونیستوں کے ظلم و ستم کا جائزہ لیا ہے اور رژیم صہیونیستی کے جمہوریت کے دعووں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن پوسٹ صہیونیست بھی اس رژیم کے وجود کو رسمی حیثیت دیتے ہیں اور اسکی نابودی نہیں چاہتے بلکہ جدید حالات سے ہم آھنگ رژیم صہیونی کے خواہاں ہیں۔