تحریر:خالد امائرے از فلسطین
فلسطینیوں کے بے تحاشہ خون سے اپنے انتہاء پسند عوام کی پیاس بجھانے کے بعد اسرائیل نے بظاہر غزہ میں سرگرم فلسطینی مزاحمتی گروپوں کیساتھ امن معاہدے پر اتفاق کر لیا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سمجھ کے مطابق اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسرائیل اپنی یہودی فوجوں کے ہاتھوں نہتے اور بے گناہ عام فلسطینیوں کی بڑی تعداد کا قتل عام کر کے مطمئن ہو گیا ہے، اسرائیل کی خونخوار جبلت کی یہ خاصیت ہے کہ بڑی سے بڑی خونریزی کے بعد بھی اس کی تسکین نہیں ہو پاتی۔ یہ وہ سبق ہے جوچو نسٹھ سال قبل اس قابل نفرت ریاست کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک ہم نے اسرائیل سے سیکھا ہے۔اپنی حالیہ جارحیت کے دوران مشرق وسطی کی اس واحد جمہوریت کے برسائے گئے بارود نے33بچوں، 14 خواتین اور
60 سے زائد معصوم شہریوں کو نگل لیا۔ تیرہ سو کے لگ بھگ افراد زخمی ہو گئے جن میں اکثر عام شہری تھے۔ چار سو سے زائد معصوم بچوں کے جسم بھی زخمو ں سے چور ہوئے۔ زخمیوں میں سے متعدد افراد اب بھی جان کنی کے عالم میں ہیں۔
آٹھ روز تک غزہ کے عام شہریوں کو خون میں نہلانے کے بعد اسرائیلی ترجمان ٹیلی ویڑن کی سکرین پر نمودار ہو کر انتہائی شرمناک طور پر یہ دعوی کر رہا تھا کہ نازیو ں کی سرشت رکھنے والی اس کی فوج نے کسی شہر ی کو جان بوجھ کر نشانہ نہیں بنایا۔ خدا اور دنیا بھر کے انسان جانتے ہیں کہ اسرائیل کا یہ دعوی انتہائی فحش قسم کا جھوٹ ہے۔ اس طرح کے بیانات دینا اسرائیل کا معمول ہے جس پر اسرائیلی صہیونی بجا طور پر خدا کے سب سے زیادہ جھوٹے لوگ کہلائے جانے کے حقدار ہیں۔
اسرائیل اپنے وجود کے پہلے دن سے انسانیت کے ایک مجرم کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اسرائیل کے پاس ہمیشہ سے ایسی ساکھ کی واضح کمی رہی ہے جو اس کی حکومت اور اس کی فوجی قیادت کو ایک اخلاقی حکومت اور فوج ظاہر کر سکے۔ اسرائیلی سیاستدان اور فوجی رہنماسب کے سب تصدیق شدہ جنگی مجرم ہیں۔ اسرائیلی فوج کے سب سے چھوٹے عہدیدار سے لیکر چیف آف جنرل سٹاف تک سب کے ہاتھ بے گناہ اور معصوم لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
اسرائیلی عوا م کی اکثریت ہمیشہ سے ناقابل اصلاح مجرموں اور قاتلوں کو اپنے رہنماؤ ں کے طور پر منتخب کرتے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عربوں کے قاتل اور بڑے بڑے قتل عام میں ملوث افراد آج اسرائیل کے تمام اہم ترین اور کلیدی عہدوں پر براجمان ہو کر اسرائیل کو چلا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے بے دریغ قتل عام کے باوجود واشنگٹن، پیرس، لندن حتی کے ماسکو میں بھی کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بلکہ یہ سب بے مثال کارکردگی دکھانے پر حالیہ دور کے ان نازیوں پر ستائش کے ڈونگرے برساتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود کالے کو سفید نہیں کہا جا سکتا۔ امریکا خود تاریخی طور پر انسانیت کے قتل عام کا بڑا مجرم ہے جس کے پاس اس دور کے نازیوں کوخون بہانے سے روکنے کا کوئی اخلاقی جواز ہی نہیں ہے۔ امریکی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ملک کے اصل ایک سے ڈیڑھ کروڑ رہائشیوں کو قتل کیا تھا، اور پھر اس نسل کشی کو ناقابل تبدیل تقدیر قرار دیدیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اسی طرح کے قتل عام میں ملوث ہونے کا اطلاق برطانیہ، فرانس اور روس پر بھی ہوتا ہے۔
غزہ پر حالیہ اسرائیلی بمباری کے مخالف مغرب کا ایک اور فحش غلطی پر مبنی پہلو یہ ہے کہ سارا مغربی میڈیا یہ دعوی کر رہا ہے کہ حماس نے اسرائیل کو اشتعال دلایا جس پر صہیونی فوج نے غزہ عام شہریوں پر بارود کی بارش کردی، دوسری جانب مغربی میڈیا یہ حقیقت یکسر بھول گیا ہے کہ اسرائیل کا مشرق وسطی میں اپناوجود ایک انتہائی نامانوس اور اجنبی پرندے کی طرح کا ہے۔جو اپنے غول کو چھوڑ کر کسی دوسرے صنف کے پرندوں کے بیچ بیٹھا ہو۔
حقیقت تو یہی ہے کہ یہ وہی یہودی حملہ آور تھے جنہوں نے مغربی طاقتوں کی آشیر باد اورمدد کے ذریعے سے مشرقی یورپ سے آکر فلسطین پر قبضہ کیا ، یہاں کے لوگوں کا قتل عام کیا ، انہیں دہشت زدہ کیا اور ان کے گھروں کو ملیامیٹ کرکے انہیں فلسطین کے چاروں اطراف ملکوں میں نقل مکانی اور دربدری کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا۔ یہی صہیونی اب پوری ڈھٹائی اور بے شرمی سے اپنے ہی ستائے اور ظلم و ستم کے شکار بے سرو پا فلسطینیوں پر الزامات عائد کر رہے ہیں۔
اخلاقی فتح
فلسطینی دھوکے میں نہیں ہیں اور نہ ہی یہ کسی بے جا قومی غرور میں مبتلا ہیں، فلسطینی جانتے ہیں کہ اسرائیل اس خطے کی سپر پاور ہے اور یہی دنیا کی سپر پاور امریکا کی حکومت پر بھی کنٹرول رکھے ہوئے ہے۔ فلسطینیوں کا اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ امریکا اور یورپ کے تمام بڑے سیاسی شہسوار بھی اسرائیل کے قدموں میں سر رکھے ہوئے ہیں، یہ سب بھی برائی کے امام یہودی پیشوا سے اچھے اعمال کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے اس کے سامنے سربسجود رہتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف فلسطینیوں کو ان تلخ حقائق سے بھی پوری شناسائی ہے کہ اسرائیل اخلاقی طور پر ایک نادہندہ ملک ہے جو صرف ظلم و ستم اور قتل و غارت کے بل بوتے پر ترقی کر رہا ہے۔ یہ کہنے کی کہاں ضرورت نہیں کہ ایک ایسا ملک بے وفائی ہی جس کا دفاع ہو، ظلم جس کی عام پالیسی ہو، اجتماعی قتل عام جس کا معمول ہو، زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہ سکتا۔
بلاشبہ ہر وہ بچہ اور ہر وہ عام شہری جسے اسرائیلی لڑاکا طیارے بمباری کر کے شہید کر دیتے ہیں وہ اس صہیونی ریاست کے لیے ایک ایسی ننگ و عار بنتا جا رہا ہے جو اس کا اپنے خوفناک انجام کی جانب رفتار کو مزید تیز کر دیتا ہے۔اسرائیل نے بے گناہ اور معصوم فلسطینیوں پر اپنے بارود برسانے اور آگ و خون کا دریا بہانے والے سپاہیوں کا اسی طرح شکریہ ادا کیا ہے جس طرح جرمن نازی حکام یہودیوں کے قتل کے بعد اپنے اہلکاروں کا کرتے تھے۔
اسرائیل کی حالیہ کارروائی کے دوران فلسطینی مزاحمتی مہم نہ صرف بھرپور طور پر فعال رہی بلکہ اس نے اسرائیلی فوج اور دوسری کی زمین پر قابض یہودی آباد کاروں کو مستقل طور پر انتہائی تکلیف دہ اور پریشانی کی حالت میں مبتلا کیے رکھا۔ فلسطینی مزاحمت کار اسرائیل کی اس غارت گری سے آخر کار درست سبق ضرور حاصل کر لینگے ، اس سبق کے مطابق فلسطینی مزاحمت سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں جب کبھی بھی اسرائیلی غزہ پر نیا حملہ کریں تو مزاحمت کار مزید طاقتور ہو کر سامنے آئیں۔
فلسطینی مجاہد اسرائیل پر راکٹ حملے اپنے غرور اور اپنی طاقت دکھانے کے لیے یا کسی بھی جارحانہ جذبے کے تحت نہیں کرتے وہ تو اسرائیل جیسے بد طینت ، ان کی آباؤاجداد کی اراضی پر قابض، ظلم وستم کی داستانیں رقم کرنے والی فوج کے سامنے اپنا دفاع برقرار رکھنے کے لیے اس کی بستیوں پر اپنے انتہائی کم صلاحیت والے راکٹ برسا رہے ہوتے ہیں جس کا مقصد اس ظالم اور خونریز دشمن کو اپنے معصوم بچوں کے قتل عام سے روکنا ہوتا ہے۔ فلسطینیوں کے نونہالوں کا قتل عام کوئی پروپیگنڈا نہیں بلکہ کھلی حقیقت ہے بلکہ ساری دنیا کے لیے اظہر من الشمس ہو چکی ہے۔
یاد رہے جب ایک جانب پانچ یا چھ افراد ہلاک ہوں اور دوسری جانب ہزاروں افراد زخمی اور شہید ہوں تو اسے ہم جنگ نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ تو ایک کی جانب سے دوسرے کا کھلا قتل عام ہی کہلایا جائیگا۔ اسرائیل سے یہی توقع ہے کہ وہ اپنی ذہنی پسماندگی اور تکبر و رعونت سے مجبور ہو کر ایسی ہولناک اور انسانیت سوز کارروائیاں جاری رکھے گا مگر آخر کار باقی وہی رہیگا جس کی اخلاقی بنیادیں مضبوط ہونگی۔ اسرائیل اپنے انتہائی برے اور جابرانہ اقدامات کے ذریعے اپنے انجام بد کو مزیدقریب کرتا جا رہا ہے۔