تحریر:ذیشان حیدر
غزہ پر حالیہ خوفناک بمباری کے دوران ااور ان جھڑپوں کے بعد اسرائیلی رہنما انتہائی شرمناک طور پر اور پوری ڈھٹائی سے یہ دہائی دیتے رہے کہ دراصل اسرائیل فلسطینی جارحیت کا شکار ہے۔
اسرائیلیوں نے اپنے ہی محاصرے اور پہلے سے ظلم کے شکار غزہ کے رہنے والوں کا بلااشتعال قتل عام کیا اور پھر بھی اپنی پارسائی کے دعوے کیے۔ اس طرح کی مجرمانہ بے حسی اسرائیل کی مجموعی سوچ اور عمومی رائے کا ہمیشہ سے حصہ رہی ہے۔
دنیا کے انتہائی خطرناک اور مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی فوج نے چودہ تا اکیس نومبر غزہ پر اپنی اس غارت گری میں 176 نہتے اور بے گناہ فلسطینیوں کو شہید جبکہ 1500 کے لگ بھگ افراد کو زخمی کر دیا، زخمی ہونے والوں میں سے 350 افراد کو خطرناک اور گہرے زخم آئے ہیں۔ شہید ہونے والوں کی اکثریت معصوم شہریوں کی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے والے رویے کی وجہ اتنی ہی سادہ ہے جتنی اشتعال انگیزی۔ صہیونی یہودی دراصل نسل پرست اور ناقابل تصور حد تک اپنی ذات کو دوسروں سے برتر سمجھنے اور خود کو ہی سب سے بالاتر سمجھنے والے لوگ ہیں۔ یہ لوگ جان بوجھ کر یا غیرارادی طور پر تاہم بڑے موثر انداز میں غیر یہودیوں کو ایسا کمتر انسان سمجھتے ہیں جس کی کوئی عزت نفس اور وقار نہیں ہے۔اور ماشاء اللہ سے خود دنیا کی واہیات ترین قوم بن چکی ہے۔
بدقسمتی سے سیاسی طور پر درست مگر اخلاقی طور پر دیوالیہ شمالی امریکا اور یورپ کے میڈیا نے اسرائیل کی مجرمانہ نسل پرستی کے اس یادگار واقعے پر انتہائی کم توجہ دی۔ یہ اسرائیل کے ساتھ ان کا خفیہ اور غیر اخلاقی گٹھ جوڑ ہے جو اسرائیل کو سچ کو دھندلا کرنے اور حقائق کو مسخ کرنے کے نہ صرف قابل بناتاہے بلکہ اس کی مدد سے وہ اپنے بے یارومدد گار شکار کا قتل عام کرکے بھی خود کو انہیں نہتے افراد کا شکار ظاہر کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے۔اور یہ محض دوہرے معیار کی وجہ سے ہے۔
یہ انتہائی غیر اخلاقی میڈیا ہی ہے جس نے مغربی دنیا کو اتنی ہمت دی کہ وہ تنازع کے اصل حقائق کو نظر انداز کرکے فلسطینیوں کی ابتر صورتحال کا باعث بناہے۔ بلاشبہ اسرائیل ایک قاتل، جھوٹا اور فلسطینیوں کی اراضی ہتھیانے والا ایک غنڈہ ہے۔ مشرقی یورپ سے آنے والے یہودی نازی اوراسرائیل کے بانیوں نے فلسطینیوں سے اپنی سرزمین پر رہنے کا درست حق چھینا، انہیں اپنے ملک سے نکال کر دنیا بھر میں دربدر کر دیا۔
اسرائیلی آباد کاروں نے فلسطینیوں کے گھر تباہ کر دیے، ان کے گاؤں کے گاؤں ملیامیٹ کر دیے، کنووں اور پانی کے چشموں کو زہر آلود کر دیا اور پھر انہیں دنیا میں در بدر کر کے، فلسطینیوں کے گھروں پر قبضہ کر کے ہجرت پر مجبور کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل انہیں فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دینے کی ہمت بھی کر لیتا ہے۔
یہ بات انتہائی قابل مذمت ہے کہ اسرائیلی مظالم کی انتہاء کے باوجود مغربی میڈیا طوطے کی طرح یہ رٹ لگائے رکھتا ہے کہ اسرائیلی شہری حماس کے راکٹوں کے نشانے پر ہیں۔ جی ہاں مغرب ہی ہے جس نے فلسطین کے اصل باشندوں سے انکا وطن چھینا اور اسے پلیٹ میں رکھ کر اسرائیل کے حوالے کر دیا، اب یہ مغرب کس طرح اسرائیل اور فلسطینیوں کے اس تنازع میں اتنی دیانتداری اور انصاف کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اگر کسی کے پاس کسی چیز کی کمی ہو تو وہ اسے دوسروں کو بھی نہیں دے سکتا۔
اسرائیل کے دو انتہائی بھیانک اور فحش جھوٹ ہیں جن کی طرف میری توجہ ذرا دیر سے گئی۔ پہلا یہ کہ اسرائیل دعوی کر رہا ہے کہ درحقیقت وہ اہل غزہ کی مدد کر رہا ہے۔ بات کو لمبا کیے بغیر ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ اپنے شیطانی سرشت کے مطابق اسرائیل اس دعوے میں واقعی سچا ہو سکتا ہے۔ اسرائیلیوں کی ذہنیت اس بات سے بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ نازی طرز کے بعض یہودیوں کا خیال ہے کہ اگر کسی یہودی کو کسی انسانی عضو کی ضرورت ہوتو اس کے لیے کسی بھی غیر یہودی کو قتل کیے جانے کی مکمل طور پر اجازت ہے۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ یہودیوں کو غیر یہودیوں کی نسبت زندہ رہنے کا زیادہ حق حاصل ہے۔ جبکہ دوسری جانب یہودیوں کے علاوہ باقی تمام قوموں کو اتنا وقار حاصل نہیں ہے کہ اس کی زندگی بچا کر کسی یہودی کو موت کے منہ میں دھکیل دیا جائے۔
اگر اسی طرح کی بیماری اور غیر انسانی منطق کے مطابق سوچا جائے تو پھر تو واقعی اسرائیل اہل غزہ کو شہید کرکے اور باربار انہیں زخمی کر کے ان کی مدد ہی کر رہا ہے۔ جرمن نازی بھی اپنے وقت میں یہی دعوی کرتے تھے کہ وہ یورپی یہودیوں کو ختم کر کے دنیا کے استحکام اور امن کے لیے کام کر رہے ہیں۔ آج کے نازی طرز عمل رکھنے والے صہیونی بھی بالکل یہی دلیل دے رہے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو مار کروہ فلسطینیوں کی ہی مدد کر رہے ہیں۔لیکن جیسے ہی نازیوں کا نام لو تو صیہونی چراغ پا ہوتے ہیں۔
غزہ پر حالیہ غارت گری کے دوران اسرائیل کا دوسرا خوفناک جھوٹ یہ تھا کہ وہ یہ دعوی کر رہا تھا کہ اس کی فورسز جان بوجھ کر غزہ کے سول افراد کو نہیں مارتیں۔ تاہم دوسری جانب خود اسرائیل کے اکثر ترجمان اس بات کا انکار نہیں کرینگے کہ صہیونی فورسز نے جانتے ہوئے فلسطینی شہریوں کو قتل کیا ہے۔ جان بوجھ کر اور جانتے ہوئے مارنے میں کیا فرق کیا جا سکتا ہے؟ بلاشبہ دنیا کے اس بدترین جھوٹ کے بعد بڑی آسانی سے یہودیوں کو خدا کی مخلوقات میں جھوٹی قوم کا لقب دیا جا سکتا ہے۔
اسرائیل کے بعض پیشہ ور جھوٹے یہ دعوی کر رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کو غلطی سے مارا۔ ان پیشہ ور جھوٹے غنڈوں کا یہ جھوٹ گزشتہ دو جھوٹوں سے بھی زیادہ مضحکہ خیز اور بدتر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ غلطی سے کوئی کام ایک بار، دو بار، چار بار یا دس بار تو ہو سکتا ہے مگر کیا ہو سکتا ہے کہ ایک غلطی ہزاروں بار ہو اور سال کے ہر دن ہوتی ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کے قتل پر مبنی اس طرح کی غلطیاں (بھیانک جرم) کرنا اسرائیل کی طے شدہ پالیسی کا حصہ ہے۔
اسرائیل کے نازی طرز کے مظالم کے سامنے فلسطینی اپنی غیر معمولی ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے، فلسطینیوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی متبادل ہے۔ تاہم حق و باطل کے اس معرکے میں شہید ہونے والا ہر فلسطینی مرد، عورت ا ور بچہ اسرائیل کے اپنے بھیانک انجام کی جانب سفر کی رفتار کو تیز کرتا جا رہا ہے۔