یہ الدلو خاندان کا قتل عام ہے، ایک اور منظر میں القسام بریگیڈ کے مایہ ناز کمانڈر احمد جعبری اور ان کے ساتھ محمد ھمص کی شہادت کے مناظر ہیں، صحافیوں میں حسام سلامہ، محمود الکومی اور محمد ابو عیشہ کی لاشیں صہیونی غارت گری کا نوحہ کر رہی ہیں۔
ا س سے آگے حجازی خاندان کے افراد کی لاشے بکھرے پڑے ہیں، صلاح خاندان کے گھر کی تباہی کا منظر الگ ہے۔ یہ سب مناظر ایک ہی کہانی بیان کر رہے ہیں اور وہ ہے نہتے فلسطینیوں پر آٹھ روز تک جاری رہنے والی اسرائیلی خونریزی کی داستان ہے۔
ہر منظر اپنے اندر اسرائیلی میزائلوں کی زد میں آکر پھیلنے والے تباہی کا ثبوت پیش کر رہا ہے۔ جی ہاں یہ چودہ تا اکیس نومبر تک جاری رہنے والے معرکہ ”کنکر کے پتھر” کو تاریخ میں محفوظ کرتے مناظر کی تصویری نمائش ہے جس کا انعقاد فلسطینی حکومت کے شعبہ اطلاعات نے غزہ سٹی میں کیا تھا۔
غزہ میں ”مرکز اطلاعات فلسطین” کے نمائندے نے اس نمائش کا احوال پیش کرتے ہوئے کہا کہ تباہی اور بربادی، خون اور بارود کے ان مناظر میں اہل غزہ کی فتح اور کامیابی کے نشانات واضح نظر آرہے تھے۔ انتہائی کٹھن اور نامساعد حالات میں اسرائیل کی اس غارت گری کے باوجود راکھ کے ڈھیروں سے اٹھنے والی فتح کی چنگاریوں کی علامات واضح نظر آ رہی تھیں۔ فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ ایک ہسپتال میں ایک چھوٹی بچی کی عدالت کر رہے ہیں جبکہ اس بچی نے دونوں انگلیوں سے وکٹری (فتح) کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ اس آٹھ سالہ بچی کہ معصوم چہرے پر پھیلی مسکراہٹ ہی وہ چیز ہے جو فلسطینیوں کی ثابت قدمی اور کامیابی کی نوید سناتی ہے۔
آٹھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے غز ہ کے 175سے زائد خواتین، بچے ، بوڑھے اور نوجوان شہید اور چودہ سو کے لگ بھگ زخمی کر دیے، صہیونی میزائلوں کی بوچھاڑ سے پھیلنے والی تباہی میں اہل غزہ کو پانچ لاکھ ڈالرز سے زیادہ مادی و مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ اسرائیل کی اس سفاکیت کے مناظرمیں اس بچے کے لاش بھی موجود ہے جس کی عمر کچھ ماہ سے زیادہ نہیں ، سفید کفن میں لپٹی اس نونہال کی نعش سے بہنے والے خون سے کفن سرخ ہو چکا ہے۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین