اسرائیلی سرکاری ذرائع نے اعتراف کیا ہے کہ مغربی کنارے میں صہیونی عسکری اڈو ں اور یہودی بستیوں پر مزاحمت کاروں کے حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے تاہم یہ مسلح جدوجہد اس حد تک نہیں بڑھی کہ اسے انتفاضہ قرار دیا جا سکے۔
صہیونی ریڈیو نے بدھ کے روز کی اپنی نشریات میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران مغربی کنارے میں صہیونی فوج اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپوں میں بھی کافی شدت آ گئی ہے۔ یاد رہے کہ نومبر میں غزہ پر غارت گری کے بعد سے مغربی کنارے میں اسرائیل کی مخالفت میں
تیزی سے صہیونی حکام کو فلسطینیوں کی تیسری انتفاضہ تحریک کے شروع ہونے کا شدید خوف لاحق ہے۔
فلسطینیوں کے اسرائیل کے خلاف بڑھتے غصے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ منگل کی شام مغربی کنارے کے شمالی علاقے طمون میں ہونے والی جھڑپوں میں ایک سو سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے۔ یہ فلسطینی تحریک جہاد اسلامی کے ایک کارکن کی گرفتاری کیخلاف سراپا احتجاج تھے۔ مراد بنی عودہ کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والے ان شہریوں پر اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے ربڑ کی گولیوں اور اشک آور گیس کے شیلوں کی بوچھاڑ کر دی۔ فریقین کے مابین ہونے والی ان خوفناک جھڑپوں میں صہیونی فورسز نے فلسطینیوں پر براہ راست فائرنگ بھی کی ۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے طمون کے علاقے کو ”ممنوعہ فوجی علاقہ” قرار دے رکھا ہے اور علاقے کی مشرقی جانب چیک پوسٹیں بھی قائم کر رکھی ہیں جہاں پر فلسطینی گاڑیوں کو روک کر ان کی تلاشی لی جاتی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے مسافروں کو روک کر انہیں زدوکوب کرنا معمول کی بات ہے۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین