یورپ میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپ ’یورو متوسطہ’ نے مفصل رپورٹ میں بتایا کہ نومبر کے وسط میں غزہ کی پٹیکے خلاف اسرائیلی فوجی جارحیت کے دوران اکتالیس کم سن بچوں دانستہ طور پر نشانہ بنا کر شہید کیا۔
’یورو متوسطہ ہیومن رائٹس آبزویٹروی کی بدھ کے روز جنیوا سے جاری کردہ مفصل رپورٹ میں بتایا گیا کہ چودہ سے اکیس نومبر کے درمیان صہیونی فوجی جارحیت میں اکتالیس کم سن بچوں کو ٹارگٹ کلنگ حملوں میں شہید کیا۔ ان اکتالیس میں سے سات شیرخواربھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق گروپ کے مطابق تہترصفحات پر مشتمل اس رپورٹ کی تیاری میں جارحییت کا نشانہ بننے والے بچوں کے والدین، زخمیوں اور دیگر شہریوں کے علاوہ مقامی آبادی اور عینی شاہدین کے بیانات بھی قلم بند کیے گئے ہیں۔انسانی حقوق کے گروپ کی ایک ٹیم نے جنگ سے تباہ حال شہرکا دورہ کیا اور اسرائیلی فضائی حملوں کا نشانہ بننے والے شہریوں کے بارے میں شواہد اکٹھے کیے ہیں۔ غزہ سے ملنے والے شواہد سے معلوم ہوتا ہے ان آٹھ دنوں میں جنگ کی شدت سنہ 2008ء کی جنگ سے کہیں زیادہ تھی۔
صہیونی فوج نے جتنا بارود اور بم ان آٹھ دنوں میں غزہ پربرسائے ہیں اتنے چار سال قبل کی بائیس روزہ جنگ میں نہیں برسائے گئے۔ تاہم سنہ دو ہزار آٹھ اور رواں سال کی جانے والی جارحیت میں ایک قدر مشترک یہ تھی کہ دونوں جنگوں میں سب سے زیادہ نشانہ بننے والے بے گناہ شہری تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی جارحیت کے نتیجے میں مجموعی طورپر41 بچے دانستہ طور پر نشانہ بنائے گئے جن میں سے 21 دس سال سے بھی کم عمر کے تھے۔
یورپی انسانی حقوق کی تنظیم نے بے گناہ شہریوں پرممنوعہ اسلحہ کا بے دریغ استعمال کرنے اور نشانہ بنا کر بچوں اور خواتین کو شہید کرنے کو جنگی جرم قرار دیا۔ تنظیم نےعالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں نہتے شہریوں کے قتل میں ملوث صہیونیوں کو جنگی مجرم قرار دے اور ان کے خلاف عالمی عدالتوں میں مقدمات چلائیں۔