آئی ایچ ایچ کی جانب سے جاری ایک بیان کی نقل مرکزاطلاعات فلسطین کو بھی موصول ہوئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ جمہوریہ جنوبی افریقا کے پراسیکیوٹرجنرل اور پولیس نے خاتون صحافی غادیجہ دافیڈز کی جانب سے 2011ء میں دی گئی درخواست پر کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ عدالت کی جانب سے درخواست تحقیقات کے لیے منظور کیے جانے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے غادیجہ ڈافیڈز کا کہنا تھا کہ میں عدالت کے فیصلے کا احترام کروں گی۔ اس نے کہا کہ میری درخواست پر کارروائی کے فیصلے کے بعد جنوبی افریقا کے انسانی حقوق کی حمایت سے میری یقین میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ مجھے امید ہے کہ فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی بحریہ کے کمانڈوز کے حملے میں مجھے انصاف ملے گا۔ خیال رہے کہ غادیجہ بھی مرمرہ کے متاثرین میں شامل تھی۔
ادھرغادیجہ کے وکیل زیاد باتل کا کہنا ہے کہ میری موکلہ اور مرمرہ جہاز میں سوار دیگرتمام انسانی حقوق کےکارکنوں کے ساتھ صہیونی کمانڈوز نے غیرانسانی سلوک کیا۔ ہم اسرائیلی کمانڈوز کے حملے کو وحشیانہ، جنگی اور غیرانسانی فعل قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جنوبی افریقا کی عدالت کا دروازہ اس لیے کھٹکھٹایا ہے کیونکہ جنوبی افریقہ معاہدہ روم کی پابندی کرنے والا ملک ہے اورپہلے اور تیسرے معاہدہ روم میں امدادی مشن پرآنے والے قافلوں پر حملہ جنگی جرم تصور کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ 31 مئی 2010ء کو انسانی حقوق کے عالمی کارکنوں کا ایک عظیم الشان بحری امدادی قافلہ غزہ کی پٹی کا محاصرہ توڑنے کے لیے عالمی سمندری حدود میں عازم سفرتھا کہ اس دوران قابض فوج کی بحریہ نے ترکی کے امدادی جہاز مرمرہ پرحملہ کرکے نو ترک شہریوں کو شہید اور پچاس کو زخمی کردیا تھا۔ قابض فوج نے امدادی سامان لوٹنے کے بعد قافلے میں شامل چھ سو انسانی حقوق کے رضاکاروں اورعالمی شخصیات کو یرغمال بنا لیا تھا۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین