تحریر: عرفان علی
شام اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گذر رہا ہے۔ صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لئے امریکا علی الاعلان میدان میں ہے۔
سب سے پہلے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ۸۲ فروری ۲۱۰۲ ع کو امریکی سینیٹ میں اپنی وزارت کے لئے نئے مالی سال کے بجٹ کی درخواست کے لئے جو تقریر کی اس میں شام کا تذکرہ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ©” بشار الاسد کے بغیر شام©“ کے منصوبے کے لئے مالی بجٹ مختص کیا جائے۔ اسی تقریر میں انہوں نے امریکی اتحادی اسرائیل کے دفاع وتحفظ کی بات بھی کی۔
گو کہ یہ بات امریکی قانون ساز ادارے میں فروری ۲۱۰۲ ع میں کی گئی لیکن امریکا اور برطانیہ شروع سے بشار الاسد کی شامی حکومت کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ کی سلامتی کاﺅنسل میں روس اور چین کی جانب سے شام کی حمایت کرنے کے بعد امریکا، برطانیہ ، فرانس اور اس کے عرب اتحادیوں اور ترکی نے شام سے دشمنی نبھانے کے لئے ” فرینڈز آف سیریا“ کا نقاب پہن لیا ہے ۔اس پلیٹ فارم کا پہلا اجلاس فروری ۲۱۰۲ع میں تیونس میں منعقد ہوا ۔
یاد رہے کہ ملک شام کو عربی میں سوریا اور انگریزی میں سیریا کہا جاتا ہے ۔فرینڈز آف سیریا کا دوسرا اجلاس ترکی کے شہر استنبول میں اپریل میں منعقد ہوا ۔ ترکی کے ساتھ قطر ، سعودی عرب اور عرب لیگ بھی امریکا کے ساتھ اس شام دشمن صہیونی سازش میں شریک ہیں۔ فرینڈز کا تیسرا اجلاس جولائی میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں منعقد ہوا۔ شام میں دہشت گردی کا آغاز مارچ ۱۱۰۲ ع میں ہوا تھا۔
شام کی حکومت کے خلاف سب سے بڑا اتحاد المجلس الوطنی السوری (سیرین نیشنل کاﺅنسل ) ہے۔اس اتحادکے قیام کا رسمی اعلان اگست ۱۱۰۲ ع کوترکی کے شہر استنبول میں کیا گیا تھا۔ اس میں چھوٹے بڑے ۱۷ گروہ شامل ہیںجن کی اکثریت شام سے باہر زندگی گذار رہی ہے۔ اخوان المسلمون کے کئی جلاوطن رہنما بھی اس اتحاد میں شامل ہیں۔ اکتوبر ۵۰۰۲ ع میں جاری کئے گئے اعلان دمشق جاری کرنے والوں نے بھی اس مجلس وطن سوری یا سیرین نیشنل کاﺅنسل کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ ان میں شامی قلمکار عبدالرزاق عید، صحافی مشعل کیلواور حسن عبدالعظیم شامل ہیں۔ اس کاﺅنسل کے ترجمانوں میں سے ایک برہان غالیون پیرس میں مقیم ہیں۔ غالیون نیشنل کو آرڈینیشن باڈی فار ڈیموکریٹک چینج اور لوکل کو آرڈینیشن کمیٹیز کے درمیان بھی پل کا کردار ادا کررہے ہیں۔
اس کے بعد سوئیڈن میں مقیم کرد رہنما عبدالباسط سیدابھی اس کاﺅنسل کے ترجمان مقرر ہوئے۔ سابق شامی جج ہیثم المالح، کمال ال لبوانی اور خاتون وکیل کیتھرائن ال ٹالی نے مارچ ۲۱۰۲ ع میں سیرین نیشنل کاﺅنسل سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کے مطابق یہ بدعنوان لوگوں کا اتحاد ہے اور درحقیقت یہ اخوان المسلمون کا لبرل فرنٹ ہے۔ یہ تینوں اہم شخصیات ہیں۔ خاص طور پر ہیثم المالح ایک اہم رہنما ہیں۔ وہ سیرین فار آل کانفرنس ، غالیون کے اتحاد اور نیشنل کاﺅنسل ٹو دی ریوولوشن کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کررہے تھے۔
ترکی کی سرزمین سال ۱۱۰۲ ع ہی میں شام کی حکومت کے خلاف کھلے عام استعمال ہونا شروع ہوگئی تھی۔
۱۳ مئی سے ۲ جون ۱۱۰۲ع تک تین روزہ اجتماع منعقد کیا گیا جو انطالیہ اجتماع کے نام سے مشہور ہوا۔ آرگنائزیشن فار ڈیموکریسی اینڈ فریڈم ان سیریا کے ڈائریکٹرربال الاسد نے اس اجتماع پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس اجتماع میں شام کے عوام کے حقیقی نمائندے شریک نہیں ہوئے تھے حالانکہ ربال الاسد خود اسرائیل کا حامی اورلبنان کے سعد حریریگروپ کا ایک مہرہ ہے ۔ ایک صہیونی امریکی تھنک ٹینک نے اگست ۱۱۰۲ع تک شام مخالف اتحاد اور گروہوں کا جو خاکہ بنایا تھا، اس میں کرد رہنماﺅں ، قبائلی رہنماﺅں ، علاقائی شیخوں کے علاوہ، کل گیارہ گروہ شامل تھے۔ ان میں بیلجیم کے شہر برسلز میں قائم کیے گئے اتحاد نیشنل کوالیشن ٹو سپورٹ دی سیرین ریوولوشن کا نام بھی شامل تھا۔
سال ۱۱۰۲ع میں ہی شام میں غیر ملکی مداخلت کے ثبوت منظر عام پر آنا شروع ہوگئے تھے۔ آغاز میں متحدہ عرب امارات اور لبنان کے سعد حریری گروپ کے کردار کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ کہا گیا کہ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد سیٹلائٹ کے ذریعے براہ راست شام کے دشمنوں کی مدد کررہے ہیں۔ ان کے ملک کے ”تھرایا ©“ موبائل سیٹ، ٹوئٹر پیغامات اور فیس بک کے ذریعے شام میں بغاوت کو ہوا دی گئی۔ اردن اور متحدہ عرب امارات کی موبائل سم استعمال کی جانے لگیں۔ جانوروں کے ذریعے اسلحہ اسمگل کیا گیا۔ سابق لبنانی رکن اسمبلی ناصر قندیل نے اپریل ۱۱۰۲ع میں ہی انکشاف کردیا تھا کہ شام کی حزب اختلاف کی اہم شخصیات شام میں سبوتاژ کے لئے لبنان میں جمع ہوئی ہیں۔ قندیل نے کہا کہ۸۱ جنوری ۱۱۰۲ع کو سعد حریری کا مشیر ہانی حمود پیرس گیا ۔ وہاں امریکی سفارتکارڈان شپیرو سے ملاقات کی جو اسرائیل میں تعینات صہیونی سفارتکار تھا۔ وہاں اس نے لبنان میں تعینات سابق امریکی سفارتکار جیفری فیلٹ مین اور لبنان کے مارچ ۴۱ گروپ کے اہم رہنما اور سابق وزیر مروان حمدے سے ملاقاتیں کیں۔
اس کے ساتھ ساتھ سعد حریری کے اخبار المستقبل کے فیرس خشان کوشام کی حزب اختلاف سے ملوانے کے لئے بلوایا گیا۔ اس کے مشورے پر شام کے اپوزیشن گروپ کے افراد نجی جیٹ طیارے میں پہنچائے گئے اور ایئر پورٹ پر ان کی تلاشی بھی نہیں لی گئی۔ لبنان کی المستقبل تحریک کے سیکریٹری جنرل احمد حریری نے شام کے شہر تریپولی میں ہوٹل کوالٹی ان میں آپریشنز روم بنائے۔ امریکا میں مقیم فرید غادری، سابق شامی رکن اسمبلی مامون ال حمصی اور ربال الاسد نے لبنان میں پوزیشن سنبھالی۔ یہ سب اسرائیل کے کٹر حا می ہیں۔
سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ شہزادہ بند ر بن سلطان نے قطر کو دھمکی دی کہ اگر قطر میں مقیم معروف عالم یوسف القرضاوی اور الجزیرہ ٹی وی چینل نے شام کے خلاف مہم میں حصہ نہ لیا تو قطر میںحکومت کے خلاف تحریک شروع کردی جائے گی۔ایک اخبار نے رپورٹ شائع کی تھی کہ شام کے خلاف جعلی ناموں سے کاروائی کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق امریکا اور یورپ سے ہے۔ پیرس میں مقیم اپوزیشن نے دو متضاد موقف اختیار کیے۔ ایک نے اصلاحات کا نعرہ لگایا اور کہا کہ شام میں امریکا اور سعودی عرب سمیت ہر مداخلت غلط ہے۔
دوسرا گروہ صہیونی لابی سے تعلق رکھتا ہے۔ فرید ال غادری کے گروہ نے جون ۷۰۰۲ع میں اسرائیل کادورہ بھی کیا تھا۔رفیق حریری قتل کیس کا جھوٹا گواہ اور حریری کا مشتبہ قاتل زھیر ال صدیق کے پیرس میں قیام کے انتظامات بھی اسی گروہ نے کئے تھے۔ ”اعلان دمشق “کے چیئر مین عبدالرزاق عید اور اس کے بیٹے کو سعد حریری کی تحریک المستقبل کی جانب سے فنڈنگ کی گئی۔ پیرس اسکوائر پر اپوزیشن گروپ کے رہنما ہیثم منا نے اپنے مظاہرے میںدوسرے گروپ کے لوگوں کو امریکی ایجنٹ کہہ کر ان کی شرکت کو مسترد کردیا تھا۔ اسی بنا پر عبدالرزاق عید کے بیٹے نے اس پر حملہ کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ پیرس میں شامی سفارتخانے سے اس کے روابط ہیں۔
لبنان کے رکن اسمبلی جمال جراح کا تعلق بھی تحریک المستقبل سے ہے۔ اس نے ایک تین رکنی دہشت گردی سیل کو اسلحہ بھی فراہم کیا اور ان کی مالی معاونت بھی کی۔ شام یا خطے کی صورتحال سمجھنے کے لئے امریکی سی آئی اے کے انتہائی نزدیک سمجھے جانے والے امریکی کالم نگار ڈیوڈ اگناشیئس کا کالم پڑھ لینا چاہیے جو ۶ نومبر کو لبنان کے انگریزی اخبار ڈیلی اسٹار میں شایع ہوا۔ اس میں موصوف نے لکھا تھا کہ آنے والے ہفتوں میں مشرق وسطیٰ میں پراکسی وار (نیابتی جنگ) میں شدت آسکتی ہے۔
فرید ال غادری نے صہیونی اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسیٹ میں خطاب بھی کیا۔ اس خطاب کے بعد شامی حکومت نے اسکی شامی شہریت منسوخ کردی تھی۔ اس کے والدکی خدمات کے اعتراف میں سعودی عرب نے اسے سعودی شہریت دے رکھی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع سے ٹھیکے لینے والی کمپنی میں غادری نے ۲ سال تک کام کیا۔ امریکا میں مقیم غادری نے امریکا ہی میں جماعت اصلاح شام تشکیل دی ہے۔
مامون ال حمصی نے حال ہی میں شام میں اقلیت کے قتل عام کی بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شام کو اقلیت سے پاک کردیا جائے گا۔ وہ ۶۰۰۲ع میں شام سے فرار کرگئے تھے۔ ۷۰۰۲ ع میں انہوں نے امریکی صہیونی نیو کونز گروپ کی پراگ سیکیورٹی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس میں ان کی اطالوی نژادخاتون اسرائیلی سیاستدان فیاما نیرنسٹائن کے ساتھ ملاقات کی تصویردنیا بھر میں نشر ہوئی تھی۔ فیاما مامون کے بازو میں ہاتھ ڈالے کھڑی تھی۔ فیاما القدس میں غیر قانونی یہودی بستی گیلو میں قیام پذیر ہے۔ وہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطین کی اقوام متحدہ میں رکنیت کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ پراگ کانفرنس میں مامون نے فرید ال غادری سے بھی ملاقات کی تھی۔ ان ملاقاتوں کے بارے میں فیاما نے ایک مضمون بھی تحریر کیا تھا۔
ان نام نہاد سیاسی نما چہروں کے ساتھ ساتھ ایک فری سیرین آرمی (الجیش السوری الحر) بھی ۲۷ جولائی ۱۱۰۲ ع سے شام میں دہشت گردی میں مصروف ہے۔ شام کے اعلی سطح کے فوجی افسران، سیاستدان، دیگر عہدوں پر کام کرنے والے اہم افراد اور ان کے رشتے داروں سمیت عام شہریوں کو ہدف بنا کر قتل کیا جا چکا ہے۔ ۵۲ اگست ۲۱۰۲ ع کو برطانوی اخبار ٹیلی گراف میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیاگیا کہ شام میں دہشت گردی کے لئے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے برطانوی نژاد نوجوانوں کو بھرتی کیا جارہا ہے۔ ان نوجوانوں یا انکے آباءکا تعلق پاکستان، سوڈان اور افغانستان سے ہے۔
سال ۰۱۰۲ع میں امریکی اخبار میں خبر شائع ہوئی تھی کہ امریکا میں مقیم عرب اور ایرانیوں کو امریکی سی آئی اے اپنے مقاصد کے لئے بھرتی کر رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ۸۲ ستمبر ۲۱۰۲ ع کو نیویارک میں نام نہاد فرینڈز آف سیریا کے اجلاس میں شام میں دہشت گردی کے لئے مزید ساڑھے چا ر کروڑ ڈالر اضافی رقم مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکا پہلے ہی کمیونیکیشن آلات کی خریداری کے لئے دہشت گردوں کو ڈھائی کروڑ ڈالر کی مدد فراہم کر چکا ہے۔
شام کی حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی کثیر تعداد کا تعلق مصر ، الجزائر، سعودی عرب اور افغانستان سے ہے۔ بی بی سی کے شام میں مقیم نمائندے کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک اسلحہ ساز کمپنی نے سعودی عرب کے لئے جو اسلحہ روانہ کیا تھا، وہ شام میں دہشت گردی کرنے والے گروہ کے اڈے پر پہنچ گیا ہے۔ شامی وزیر خارجہ ولید معلم کے مطابق شام کے خلاف سازشوں میں قائدانہ کردار امریکا کا ہے۔
یہ ایک کھلی اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ شام کو صہیونیت اور اسرائیل کی عملی مخالفت اورفلسطین اور لبنان کی قومی و اسلامی و عرب مزاحمت کی عملی مدد و معاونت کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔ افسوس ہے کہ ایک ہی عرب ملک نے فلسطین اور لبنان پر اسرائیلی حملوں اور جنگ کے خلاف عربوں اور مسلمانوں کا ساتھ دیا اور اسی کے خلاف نام نہاد مسلمان حکمران امریکا کی محبت میںاسرائیلی جنگ اور سازشوں کا ایندھن بنے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے عرب اور مسلمان عوام کی غالب اکثریت اور ان کی نمائندہ تنظیمیں شام کی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔