بے تحاشہ غیر ملکی امداد وصول کرنے کے باوجود حکومت کی جانب سے چھوٹے ملازمین کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی نے بدعنوان حکمرانوں کے خلاف عوامی جذبات بھڑکا دیے اور احتجاجی مظاہروں کا شروع ہونے والا سلسلہ اگلے ہفتے مزید تیز ہونے کا امکان ہے۔گزشتہ ہفتے اساتذہ کمیٹی کے سربراہ منتصر حمدان اور ملازمین کی یونین کے سربراہ بسام زکارنہ نے الزام عائد کیا تھا کہ چھوٹے ملازمین کے لیے مالی بحران کا بہانہ کرنے والی حکومت کی وزارت خارجہ کے عہدیدران کے بیرونی دوروں اور دیگر اخراجات پردو سو ملین شیکل، جو تقریبا ساڑھے چھ کروڑ ڈالرز بنتے ہیں، پھونک دیے گئے تھے۔ ان کے بہ قول ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے رقوم نہ ہونے کے باوجود ایسے بیرونی دوروں پر بیس کروڑ خرچ کیے گئے جن میں سے اکثر کا قوم کوکوئی فائدہ نہیں تھا۔
چھوٹے ملازمین سے متعصبانہ برتاؤ
اخراجات کے حوالے سے فیاض حکومت کی غیر منصفانہ ترجیحات دیکھ کر اساتذہ اور دیگر ملازمین کی تنظیموں کے رہنماؤں نے الزام عائد کیا ہے کہ صرف داخلی وصولیوں کے حوالے سے ہی حکومت ملازمین خصوصی طور پر اساتذہ کو بآسانی تنخواہیں دے سکتی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ کم اخراجات والا یہ شعبہ بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہوجائے۔
رام اللہ حکومت کے شعبہ مالیات کے ذرائع نے ”پی آئی سی” کے نمائندے کو بتایا کہ حکومت بہت سی مدات میں ہونے والے اپنے اضافی اخراجات کم کر سکتی ہے۔ حکومت سکیورٹی فورسز کے ایسے دفاتر جو خالی پڑے ہیں کے کے کرائے کی مد میں پندرہ کروڑ ڈالرز سالانہ ضائع کر رہی ہے۔ زیراستعمال دفاتر کے کرایہ کی مد کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ اگر اس خرچے سے پیسے بچا لیے جائیں تو حکومت ماہانہ دو ہزار تنخواہ والے ایک لاکھ ملازمین کو تین ماہ تک تنخواہیں دے سکتی ہے۔ اسی طرح وزراء اور سکیورٹی عہدیداران کے ہر دفتر پر ماہانہ پچاس ہزار شیکل ضرورت سے زائد صرف کئے جا رہے ہیں۔ ایوان صدر پر سالانہ سات کروڑ ڈالرز کے اخراجات میں بھی بڑے پیمانے پر کٹوتی ممکن ہے۔
موازنے سے رہی سہی ساکھ بھی ختم
مغربی کنارے میں قائم سلام فیاض کی بدعنوان حکومت کوایک بڑا دھچکا اس وقت لگا جب جائرہ سروے میں عوام نے یہ رائے دیدی کہ غزہ کی پٹی کے مالی حالات چھ سال سے اسرائیلی گھیراؤ میں ہونے کے باوجود مغربی کنارے سے بہتر ہیں۔ ”ارواد” مرکز اور مسیحی مطالعاتی مرکز، رام اللہ کی جانب سے رائے عامہ کے ان جائزوں سے فیاض حکومت کی ناکامی اور عوام میں سبکی مزید بڑھ گئی ہے۔حکومت کی ایک وزارت کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ یہ نتائج بالکل فطری تھے کیونکہ غزہ میں ملازمین کو اسرائیلی محاصرے اور جنگ کے باوجود وقت پر تنخواہیں مل رہی ہیں جبکہ رام اللہ حکومت بے حساب عالمی امداد حاصل کرنے کے باوجود اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے سے قاصر ہے۔حکومتی عہدیدار نے دونوں حکومتوں کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ معاشرے کا کونسا طبقہ آپکی ترجیحات میں ہے، بڑے بڑے عہدیداران اور پیشہ ور افراد یا پسا ہوا اور کم آمدنی والے ملازمین۔ غزہ کی حکومت نے سخت مالی حالات، صہیونی پابندیوں، اسرائیلی بمباری کے باوجود اپنے مالی حالات پرکنٹرول رکھا ہے جس کی وجہ سے مغربی کنارے میں فیاض حکومت کی ساکھ کو بڑا دھچکا لگا ہے، انتہائی ناقص کارکردگی دکھانے پر معاشرے کے مختلف طبقات نے ان کی حکومت کو یکسر مسترد کردیا ہے۔
بشکریۃ:مرکز اطلاعات فلسطین