حماس کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر سماجی روابط کی معروف ویب سائٹ فیس بک پر ایک سروے کیا گیا جس میں شریک اکثر افراد نے اس عرصے میں حماس کی کارکردگی اور اس کے اختیار کیے گئے مزاحمتی راستے کو درست قرار دے دیا۔
گزشتہ مہینے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر آٹھ روزہ غارت گری میں 195 افرادکی شہادت اور 1300 کے لگ بھگ افراد کے زخمی ہونے کے بعد اس سرو ے میں حماس کو کامیاب قرار دیا گیا۔
سروے میں شریک طارق محمود نے ”مرکز اطلاعات فلسطین” کے نمائندے کے ”فیس بک” پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حماس کو قائم ہوئے پچیس سال ہو گئے ہیں اور اس نے ثابت کر دیا کہ وہ ہر طرح کے تغیرات کے باوجود نہ صرف باقی ہے بلکہ وہ آج بھی اپنے پہلے دن کے موقف پر ثابت قدم ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ حماس نے اس تمام عرصے میں مزاحمت کو نیا رنگ دیا اور سیاسی عمل بھی شرو ع کیا، اس نے ثابت کردیا کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات سے زیادہ اس کے ساتھ قوت کی زبان میں بات کرنا زیادہ موثر ہے۔
سروے میں پوچھے گئے سوال کہ آیا حماس درست راستے پر گامزن ہے ایک شریک کار اشرف عماد نے کہا کہ تحریک حماس کی فکر اسلامی شریعت پر قائم ہے وہ معاصر قوانین کو بھی ساتھ لے کر چل رہی ہے اور اس کے پاس فلسطین کی آزادی کا ایک واضح پروگرام ہے، وہ ہر مرحلے کی ضرورت کے مطابق مناسب اقدامات اٹھاتی ہے، وہ اپنی بعض غلطیوں اور لغزشات کے باوجود اپنی اصل کے اعتبار سے بالکل درست راستے پر گامزن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غلطی تو وہ نہیں کرتا جو کچھ عمل بھی نہیں کرتا، تاہم حماس کو اس وقت بھی انتہائی مشکلات کے باوجود لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔
اس سروے میں حصہ لینے والے صحافی محمد مصطفی کا کہنا تھا کہ حماس کابیک وقت عسکری، سیاسی ، قومی اور اسٹریٹجک لیول پر کام کر تجربہ اتنا کامیاب ہے کہ اسے آنے والی تمام نسلوں کو بھی سیکھنا چاہیے۔ حماس نے فوجی کے ساتھ ساتھ سیاسی محاذ پر کام کرکے ایک اسٹریٹجی اپنائی کہ یہ دنیا کی وہ واحد مزاحمتی اور عسکری جماعت ہے جو بیک وقت حکومت پر بھی براجمان ہے۔
معروف لکھاری اور مصنف محمد افرنجی کا کہنا تھا کہ چوتھائی صدی کے اپنے سفر میں اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس نے صہیونی شکنجوں سے مکمل آزادی کا نعرہ لگا کر بلاشبہ اپنے اطراف لوگوں کو جمع کرلیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حماس نے اپنے اوپر آنے والی تمام مصیبتوں کو بے مثال طریقے سے مقابلہ کیا، اس کے رہنماؤں کو شہید کیا گیا، ان اور ہزاروں کارکنوں کی گرفتاریاں بھی اسے اپنے مطالبے سے باز نہ رکھ سکے۔ ان کے پاس اسرائیلی میزائلوں اور سیاسی اور عسکری محاذوں پر اس کی جارحیتوں سے دفاع کا کوئی ذریعہ نہیں مگر وہ پھر اپنے اصولی فیصلے پر قائم ہے۔