اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے پچیس سالہ مزاحمتی، سیاسی اور قومی خدمت کے سفر پر ماہرین نے اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ حماس نے ربع صدی کے عرصے میں اپنی منزل حاصل کرلی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حماس کی قومی حقوق کے حصول کے لیے مسلح مزاحمت کی حکمت عملی موثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہے اور فلسطینیوں کو ان کے حقوق کی فراہمی میں حماس کی حکمت نے موثر کردار ادا کیا ہے۔مرکز اطلاعات فلسطین سے گفتگو کرتے ہوئے فلسطینی ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ حماس ایک ایسے وقت میں اپنی پچیسویں سالگرہ منا رہی ہے کہ جب فلسطینی اپنی آزادی کی منزل کے قریب تر پہنچ چکے ہیں۔ فلسطینیوں کی آزادی کی منزل کے قریب پہنچنے میں حماس کی مزاحمتی حکمت عملی کا بنیادی اور کلیدی کردار رہا ہے۔ فلسطین میں ریسرچ فار فیچر سینٹر کے چیئرمین اور تجزیہ نگار ابراہیم المدھون نے پی آئی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حماس نے پچیس سال قبل جن مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے سفر شروع کیا تھا، جماعت آج اپنی ان مقاصد کے حصول کے قریب تر ہے۔ حماس کی دیگر کامیابیوں میں سے ایک بڑی کامیابی اس کا ایک مقبول عوامی سیاسی جماعت کا روپ اختیار کرنا ہے۔ حماس نے ملک میں سیاست کی ایک نئی طرح ڈالی اور فرسودہ سیاسی نظام کی جگہ ایک اسلامی سیاسی نظام متعارف کرایا۔ یوں یہ حماس کی سیاسی میدان میں نہ صرف کامیابی ہے بلکہ حماس سیاسی مقاصد میں اپنی منزل تک پہنچ چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ حماس کی دوسری کامیابی قومی حقوق کے حصول کے لیے مسلح مزاحمت ہے۔ مسلح مزاحمت کی حکمت عملی نہ صرف کامیاب رہی بلکہ مزاحمت کے نتیجے میں طاقت کا توازن تبدیل کیا ہے۔ المدھون کا کہنا تھا کہ فلسطینی تحریک مزاحمت کے میدان میں یہ حماس کی ایک بڑی کامیابی ہے کہ جماعت نے مزاحمتی اسٹریٹجی اختیار کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ قومی حقوق کے حصول کا بہترین اور موثژ ذریعہ مسلح مزاحمت ہے۔ آج فلسطینی عوام کے علاوہ عرب اور اسلامی ممالک بھی فلسطینیوں کی مسلح جدو جہد کی کھل کرحمایت کررہے ہیں، کیونکہ مزاحمت نے اپنی طاقت کا لوہا منوایا ہے۔