اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے سیاسی شعبےکے سربراہ خالد مشعل نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست تمام فلسطینی مقبوضہ علاقوں پر قائم ہونی چاہیے۔ وہ مخصوص علاقوں میں منقسم فلسطینی ریاست کا تصور قبول نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کو ضمنی رکنیت کا درجہ دینے کی صدر محمود عباس کی کامیابی اور غزہ کی پٹی میں نومبر میں ہوئی جارحیت کو ایک ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔ فلسطینی اقوام متحدہ میں اپنی ریاست کو مبصرکا درجہ دلوانے کے لیے اس لیے کامیاب ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے مزاحمت کو اپنی تزویراتی حکمت عملی بنایا ہے۔
حماس کے لیڈر نے ان خیالات کا اظہار برطانوی خبر رساں ایجنسی رائیٹرز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا ہے۔ ان کا یہ انٹرویو مرکز اطلاعات فلسطین اور پی آئی سی کے فیس بک کے خصوصی صفحے پر بھی موجود ہے۔
غزہ کی پٹی پر صہیونی جارحیت کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ غزہ پراسرائیلی حملے میں 177 فلسطینیوں کی شہادت اور ایک ہزار سے زائد شہریوں کے زخمی ہونے کا نتیجہ حماس کے حق میں رہا ہے، کیونکہ دشمن سے جنگ بندی میں حماس نے اپنی شرائط منوائی ہیں۔ اس جنگ کے بعد حماس اور الفتح کی قیادت کے درمیان مزید قربت پیدا ہوئی ہے اور فلسطینیوں کے مابین مفاہمت کے راستے ہموار ہونے لگے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ ایسے ہوا ہے کہ امریکیوں کی موجودگی میں حماس نے اپنی شرائط منوائی ہیں۔ فلسطینیوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ سیاسی میدان میں ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فلسطینی دھڑے اپنی مفادات سے بالا تر ہو کر صرف قومی مفاد کے لیے ایک پرچم کے تلے جمع ہو جائیں۔
خالد مشعل کا کہنا تھا کہ میں نے صدر محمود عباس سے بھی کہا ہے کہ ہمیں ایک قومی حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد مسلح مزاحمت پر رکھی جائے۔ غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام نے مزاحمت کی جو روشن اور بے مثال تاریخ رقم کی ہے اس نے فلسطینیوں کے حوصلے بڑھا دیے ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ پرعزم انداز میں اپنے حقوق کے لیے مزاحمت کرنے کو تیار ہیں۔
فلسطینی ریاست کی تشکیل اور اس کے قیام کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل کا کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست محض غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے چند علاقوں پر مشتمل نہیں ہونی چاہیے بلکہ پورے فلسطینی علاقوں میں آزادی ریاست کو قائم کیا جانا چاہیے۔ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے جہاں فلسطینیوں کے مابین باہمی تعاون کی اشد ضرورت ہے وہیں عرب اور مسلم ممالک کی مشترکہ مساعی کی بھی ضرورت ہے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں خالد مشعل کا کہنا تھا کہ حماس نے سنہ 1967ء کی حدود میں فلسطینی ریاست کے قیام کو اس شرط پر تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے کہ بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قراردیا جائے اورفلسطینی پناہ گزینوں کو ان کے وطن میں واپسی کا حق دیا جائے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ حماس فلسطینی ریاست کے قیام کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی اور اس سلسلے میں کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل ہمیں محض مذاکرات کے نتیجے میں کچھ بھی نہیں دے گا جب تک ہم محاذ پر مضبوط نہیں ہوں گے مذاکرات بھی بے ثمر ثابت ہوں گے۔ تمام اسلامی اور عرب ممالک فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت چاہتے ہیں۔ اگر وہ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں تو انہیں فلسطینیوں کو فوجی امداد فراہم کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ اس وقت فلسطینی عوام کو اپنے حقوق کے لیے سیاسی سے زیادہ فوجی امداد کی ضرورت ہے۔
خالد مشعل نے مشکل حالات میں ایران اور شام کی جانب سے حماس کے ساتھ تعاون کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب امریکا اور اسرائیل حماس کی قیادت کو ختم کرنے پر تلے تھے دمشق اور تہران نے حماس کو سہارا فراہم کیا۔ حماس کوئی دہشت گرد گروپ نہیں بلکہ ایک اصولی اور جمہوری جماعت ہے جو عوام کے جمہوری حقوق کی حمایت کرتی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔
برطانوی خبررساں ایجنسی کی جانب سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا آپ کو یہ خدشہ ہے کہ آپ کو اسرائیلی کسی قاتلانہ حملے میں شہید کردے گا، تو خالد مشعل نے کہا کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک اللہ کے ہاں میری سانسیں اور رزق لکھا ہے اسرائیل سمیت دنیا کی کوئی طاقت مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین