اسلامی تحریک مزاحمت’’حماس‘‘ نے صدر محمود عباس کی جانب سے فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کی نفی کی ایک مرتبہ پھر مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حق واپسی کی نفی کے بعد محمود عباس کے پاس منصب صدارت پر فائز رہنے کا اب کوئی جواز باقی نہیں رہا ہے۔
جو بھی فلسطینی لیڈر کسی دیرینہ قومی حق کی نفی کرے گا وہ قوم کی نمائندگی کے حق سے محروم ہو گا اور قوم ایسے لوگوں کا کڑا احتساب کرے گی۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر محمود عباس کی جانب سے حق واپسی کی نفی نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ صدر نے اسرائیل کی زبان میں بات کی ہے۔ فلسطینیوں کے لیے ان کے اس موقف کی حمایت کا کوئی جواز نہیں۔ صدر محمود عباس کو چاہیے کہ وہ اپنا بیان واپس لیتے ہوئے قوم سے معافی مانگیں یا منصب صدارت سے الگ ہو جائیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر محمود عباس کا اسرائیلی ٹی وی کو دیا گیا انٹرویو اس بات کا عکاس ہے کہ انہیں قوم کے دیرینہ مطالبات اور ان کے حقوق کی کوئی فکر دامن گیر نہیں ہے۔ صدر نے نہ صرف حق واپسی کی نفی کر کے لاکھوں فلسطینیوں کی دل آزاری کی ہے بلکہ تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دے کر شہداء کے خون اور ان کی قربانیوں سے غداری کا ارتکاب کیا ہے۔ فلسطینیوں کا حق واپسی او رجہاں جہاں سے انہیں بے دخل کیا گیا وہاں دوبارہ سکونت اختیار کرنا ایک مسلمہ حق ہے جسے اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہے۔ محمود عباس یا کوئی بھی فلسطینی لیڈر پوری قوم کو اس کے اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔
حماس نے اپنے بیان میں صدر محمود عباس کی اسرائیل اور مغرب نواز پالیسی پر تنقید کے ساتھ ساتھ انہیں فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت میں ناکامی کا بھی ذمہ دار قرار دیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر محمود عباس کو امریکا اور کے پالتو اسرائیل کا مفاد عزیز ہے کیونکہ صدر انہی کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ امریکا اور اسرائیل کے دباؤ میں آ کر انہوں نے قومی مفاہمت سے ہاتھ کھینچ لیا۔
خیال رہے کہ صدر محمود عباس کا گذشتہ جمعہ کے روز اسرائیل کے ایک عبرانی ٹی وی کو دیا گیا انٹرویو فلسطینی حلقوں میں سخت تشویش کا باعث بنا ہے۔
صدرمحمود عباس نے فلسطینیوں کے حق واپسی کی علامتی انداز میں نفی کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرا آبائی شہر سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقے الجلیل میں الصفد شہر ہے لیکن میں اپنے اس شہر میں واپس نہیں جانا چاہتا۔ کیونکہ الصفد اسرائیل کا حصہ ہے۔ فلسطین صرف غزہ کی پٹی، مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر مشتمل ہے، بقیہ تمام علاقے اسرائیل میں شامل ہیں۔ انہوں نے فلسطینی تحریک آزادی کے لیے مسلح جدو جہد کی مذمت کی تھی اور اسے دہشت گردی سے تعبیر کیا تھا۔ صدر کے اس بیان پرفلسطین کے سیاسی حلقوں میں سخت لے دے ہو رہی ہے۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین