قسط6…گذشتہ سے پیوستہ
:مسئلہ فلسطین شہید فتحی شقاقی کی نظر میں
شہید ڈاکٹر فتحی شقاقی نے 1981ءمیں مصر سے غزہ پٹی کی واپسی پر اور فلسطینی جہادی تحریک کی تاسیس کے موقع پر،فلسطینی مملکت اور دوسرے اسلامی شہروں میں موجودہ اسلامی پروگراموں کے اجراءکے لئے ایک رسالہ بنام”المنھج بہترین راہ حل“ کے عنوان سے شائع کیا۔آپ نے اس میں اسلامی ممالک پر حملہ کرنے،مسلمانوں کے قدرتی ذخائر کو غصب کرنے اور ان کی ثقافتی شناخت اور اپنی اصلیت کو ختم کرنے کے لئے استعمار کے مسلسل اور مرحلہ وار منصوبوں پر بحث کی ہے۔تحریک جہاد اسلامی کے بانی نے اس میں عالم اسلام پر مغربی حملوں اور مشرق وسطیٰ پر صیہونی حکومت لادنے کے مقاصد اور ان کی کیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ یورپی صنعتی انقلاب نے،اسلامی سر زمینوں پر مغربی استعمار کے فوجی حملے کے موقع پر اعلیٰ علمی ترقیاں حاصل کی تھیں لیکن اس کے باوجود اس زمانے میں بھی مغربی عیسائی حکمرانوں کے ذہن و فکر سے عالم اسلام کے بہ نسبت صلیبی جنگوں کی کینہ توزی اور دشمنی ہر گز ختم نہیں ہوئی تھی۔
غاصب مغرب جہان اسلام میں اپنے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے فوجی حملوں اور دہشت گردی جیسے حربوں کو اپنا کر مسلم ممالک کی تہہ تک آگے چلا گیا۔فوجی قبضہ،سیاسی اثر ورسوخ کی تکمیل اور اقتصادی چابی کا اپنے ہاتھ میں لینا،یہ ایسے حربے ہیں جو استعمار کے تسلط و تجاوز کی مضبوطی کے لئے مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔اس کے علاوہ،ان کے تسلط کی مضبوطی میں ثقافتی اور فکری اسباب بھی اہم کردار نبھاتے ہیں اور یہی دو عامل آخری فیصلے کو حتمی شکل دیتے ہیں۔لہذٰا استعماری اور مغربی تسلط پسند طاقتوں کی فکری اور ثقافتی قید و بند سے امت کی فکراور ثقافت اور تمدن کو نجات دلانا مسلمین کے لئے یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ اپنے جنگ اور مقابلے کو شروع کریں اور اسلامی مملکتوں کو بیگانوں اور استعمار کے سیاسی،اقتصادی اور ثقافتی جال سے نجات دلائیںتا کہ اس طرح استعمار کے منصوبوں کو ناکام بناتے ہوئے انہیں شکست سے دو چار کریں۔
ڈاکٹر شہید شقاقی المنھج نامی رسالہ میں (جس کو بعض معروف منابع میں) تحریک جہاد اسلامی کے بنیادی قانون نامہ کے برابر سمجھا گیا،کہتے ہیں کہ متجاوز مغرب نے عالم اسلام پر سارے اطراف و جوانب سے حملے کرنے اور اسلامی سر زمینوں پر قبضہ کرنے کے بعد،کمزور نفس افراد کے دلوں میں استعمار قبول کرنے کے لئے ان کی قابلیت کو آشکار کیا اور اس طرح امت کے اندرونی قدرتی محرکوں کو نابود کیا،تا کہ اس حربے کے ذریعہ اسلامی معاشروں کے اعتقادی،اجتماعی،زندگی کے طرز عمل اور تولیدی روشوں میں تبدیلی لا کر ان کو اپنے مطالبات اور منافع کے مطابق متزلزل کر سکیں نیز مغرب کے ساتھ مسلمانوں کی ہر طرح وابستگی اور ان کی مکمل تقلید کرنے جیسے امور کو پورا کرسکیں۔
شہید ڈاکٹر فتحی شقاقی نے سارے عالم اسلام پر مغربی جارحانہ یلغار کے مرکزی اصولوں کو دو بنیادی معیاروں میں جن میں سے ہر ایک کی مندرجہ ذیل تین تین شقیں پائی جاتی ہیں ،تقسیم کیا ہے۔
:پہلا اصول
۔اسلامی سیاسی نظام اور اتحاد و یکجہتی کو سبو تاژ کرنا اسلامی حکومت کا خاتمہ کرنا
مصر پر فرانسیسی افواج کے حملے اور اس کے بعد ہی اسلامی ممالک پر مغربی استعماری یلغار ایک صدی بعد غاصب اور متجاوز مغرب اپنی سازش کو عملی شکل دے سکا،اس نے حکومت عثمانی کو جو آخری اسلامی حکومت تھی اور صدیوں سے وحدت اسلامی کا مظہر تھی،تباہ کر دیا۔
:۔اسلامی سر زمینوں کے دینی و ثقافتی مراکزکو ختم کرنا
خواہ وہ ایسے ثقافتی سینٹرز ہوں جو حکومت عثمانی سے وابستہ تھے،خواہ ایسی اسلامی تنظیمیں اور دارالمعلمین جن کی سر گرمیوں کے جاری رہنے سے ممکن تھا کہ لوگوں کو دوبارہ متحد کیا جا سکے یا حکومت اسلامی کی دوبارہ تشکیل دینے کا مقدمہ فراہم کیا جا سکے۔اسلامی ممالک میں غاصب مغرب اور اس کے حکومتی آلہ کاروں نے فقط ان کے انہدام پر اکتفاءنہیں کیا بلکہ اپنے مرضی کے مراکز اور اداروں کو تعمیر کرانے کی کوشش کی۔
:۔ایسے تمام راستوں اور افکار کوبند کرنا جو حکومت اسلامی کو برسر اقتدار لا سکیں
اس مقصد کی خاطرمتفکرین کے اذہان کو منحرف کرنا اور ان کے اندر مغربی افکار کو جگہ دینا۔مغرب کی نگاہ میں اسلام کے دینی اور ثقافتی اداروں کو نابود کرنا کافی نہیں تھا بلکہ یہ بھی ضروری تھا کہ آگاہ متفکرین اور بنیادی و حقیقی اسلامی تفکرات کے جاننے والے افراد بھی (اسی طرح منحرف کئے جائیں کہ وہ)اپنے آپ کو کھو بیٹھیں تا کہ ایسی کوئی فکر و سوچ باقی نہ رہ پائے جس کی بنیاد پر استعمار کے خلاف کوئی تنظیم بنا کر دوبارہ کھڑا ہو سکے۔
:دوسرا اصول
یہ اصول بھی تین شقوں پر مشتمل ہے۔
۔عالم اسلام کے ساتھ متحد اور متفق سر زمینوں کو دسیوں ممالک میں تقسیم کرنا،مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور
:قومی اختلاف کی آگ بھڑکانا
”سائیکس بیکو“ معاہدے کی بنیاد پر معین شدہ سرحدوں کو قبول کرنا،یہ معاہدہ پہلی عالمی جنگ کے بعد فرانس اور برطانیہ کے درمیان طے پایا تھا۔اس نئے معاہدے کے نتیجہ میں ہر ایک نئے ملک کو خصوصی طور پر ایک پرچم اور ایک قومی ترانہ عطا کیا گیا۔استعمار کے خلاف وسیع لڑائیوں اور اتحاد بین المسلمین کی حفاظت کی جد وجہد،کے باوجود استعمار اس میں کامیاب ہو گیا کہ اسلامی ممالک کے درمیان فرقہ وارانہ جنگوں اور قومی،سرحدی اور علاقائی لرائیوں کی آگ بھڑکائے۔مثال کے طور پر سر زمین پاکستان کے دونوں مشرقی اور مغربی خطوں کو وجود میں آئے ہوئے ابھی 25سال کا زمانہ بھی نہیں ہوا تھا، کہ استکباری عناصر نے دونوں حصوں میں ایک تباہ کن جنگ بھڑکائی اور جس کے نتیجے میں ایک نیا ملک بنگلہ دیش وجود میں لایا۔
شہید ڈاکٹر فتحی شقاقی ؒ اس مقالہ میں یوں لکھتے ہیں کہ استعمار نے الجزائر جیسے ملک کو بھی آزادی کے بعد مغرب کے ساتھ سرحدی مسائل میں الجھا دیا۔لیبیا اور چاڈ نیز سوڈان کے شمالی اور جنوبی خطوں کے آپسی تعلقات میں اختلاف ڈا ل کر آپس میں پھوٹ ڈالی۔جنوبی یمن کو اپنے متحدہ ملک یمن سے الگ کر دیا۔لبنان کے مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان 15سالہ جنگ کی ہوا پھونکی اس طرح کہ لبنان کے دارالحکومت بیروت جیسے شہر کو مشرقی اور جنوبی حصوں میں تقسیم کر دیا،یہ خون ریز جنگ متواتر سالوں سال دونوں خطوں کے درمیان جاری رہی۔
:سلامی اقوام کو غربزدہ اور ایک دوسرے سے اجنبی اور بیگانہ بنانا
یہ طریقہ کار فرانسیسی افواج کے مصر پر حملے کے پہلے دن سے ہی واضح تھا،فرانس کااس وقت کا حاکم”نائپولین بونا پارٹ“اس حملے کے وقت مصر کی غربزدہ،متفکر اور سیاسی افراد کی ایک جماعت کو اپنے ساتھ لایا جن کی تربیت مغربی مفادات کی حفاظت کے خاطر فرانسیسی تربیتی اداروں میں ہوئی،تا کہ فرانس کے تسلط اور مغرب کے ساتھ مصری عوام کی وابستگی کو مضبوط کرنے کی ذمہ داری ان پر عائد کی جائے۔
:۔مشرق وسطیٰ میں غاصب اور متجاوز حکومت بنام اسرائیل کا وجود میں لانا
یہ عالم اسلام کے خلاف مغرب کی چند طرفہ جنگ کے سب سے بڑی خطرناک مرکزی سازشوں میں ایک ہدف شمار ہوتا ہے۔کیونکہ عالم اسلام کے دل میں غاصب حکومت کو وجود میں لانا پھر اس کے وجود کا باقی رہنا،یہ خطے میں مغرب کے چند طرف حملے کی اہم ترین کامیابی ہے۔لہذٰا فلسطینی ملت مغربی چیلوں،آلہ کاروں ،نمائندوں اور عالمی استکبار کے مقابلے میں کھڑی ہو گئی ہے اور استعمار کے ہر پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے خلاف دشمن سمجھ کر لڑ رہے ہیں۔اسی وجہ سے فلسطینی جہاد اور دفاع تاریخی،ثقافتی،فکری،فوجی،سیاسی اور اقتصادی پہلوﺅں پر مشتمل ہے۔کیونکہ غاصب اسرائیل کے باقی رہنے سے نہ فقط اپنی امت کا دین اور ثقافت اس حقیقی خطرے سے دو چار ہوگئی ہے بلکہ ساری امت مسلمہ کے وجود کو اس واقعی (بڑے اور مہلک)خطرے کا سامنا ہو گیا ہے۔
شہید ڈاکٹر فتحی شقاقی ؒ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ مقابلے نے موجودہ اسلامی تحریک کو یہ خصوصیت عطا کی ہے کہ وہ مختکف اعتبار سے،نظری اور عملی صورت میں مسئلہ فلسطین کو اپنے راستے کا نعرہ اور نصب العین بنائیں اس لئے کہ یہ نعرہ جو کہ قرآن کے کلی اور عمومی مقاصد میں سے ہے اورامت کی موجودہ تاریخ کو صدر اسلام کی تاریخ کے ساتھ جوڑتا ہے۔ عصر حاضر کی تاریخی تبدیلیوں نے اسلامی تحریک کے فرائض کو واضح طور پر معین کیا ہے اور ہمیں اس کام کا مسﺅل بنا یا ہے کہ مغرب کے ہمہ جانب حملوں اور صیہونی پیروکار نیز مسیحت کے شورشی عناصر کے خلاف اقدام کریں۔اس وجہ سے کہ غاصب صیہونی حکومت کی بقا کا مطلب تمام استکباری قوتوں کے سازشوں کا مظہر،عالم اسلام میں مغربی تسلط کو جاری رکھنے اور ان کے ساتھ وابستگی کی مضبوطی کا ضامن،مسلمانوں کی پسماندگی اور اسلامی ممالک کی تقسیم کا باعث ہے!۔
تحریک اسلامی کی ساری شاخوں اور امت مسلمہ کو اس بات کا پابند رہنا ہے کہ ملک کے داخلی حصے سے اپنی تقدیر بدلنے والی لڑائی کی سرحد بنائے جو براہ راست بیت المقدس سے جو کہ عالم اسلام کا مرکز ہے،جا ملے۔اس میں شک نہیں ہے کہ امت کی ایک بڑی جماعت فلسطین کی وجہ سے نہایت ہی زیادہ سختیاں برداشت کر رہی ہے اور غم واندوہ کے عالم میں زندگی بسر کر رہی ہے۔تاریخی اور اعتقادی شعور ان کو سمجھا رہا ہے کہ مرکزی میدان کا ر زار فلسطینی سر زمین ہے اور موجودہ امت اسلامی کے عالمی وسیع جہاد اور دفاع کی تقدیر بھی ا سی سر زمین میں قائم ہو سکتی ہے۔
شہید شقاقی ؒ فلسطین کی آزادی کے مقصد کے لئے امت کی وحدت اور اتفاق نظر کو وحدت فکری اور وسیع آگاہی کے برابر سمجھتے ہیں جبکہ غاصب صیہونی حکومت کی بقاءکو تحریک کے سارے منصوبو ں کی ناکامی اور شکست کے مساوی سمجھتے ہیں۔وہ امت کے ایک ایک فرد کو استعماری وابستگی،غربزدگی اور صیہونزم کے ساتھ مقابلہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔بہترین پالیسی کو حاصل کرنے اور تحریک اسلامی کی تشکیل کے لئے یقینی اور اجتماعی جد وجہد ضروری قرار دیتے ہیں۔آپ فلسطین کی آزادی کی خاطر امت کی وحدت اور وابستگی کو گذشتہ تاریخ اور قرآن سے وابستگی کے مساوی قرار دیتے ہیں۔آپ تاکید کرتے ہیں کہ عصر حاضر میں عالم اسلام کے سیاسی و جغرافیاءکا مرکز مسجد الاقصیٰ اور بیت المقدس ہے۔
ڈاکٹر شہید شقاقی ؒ اپنی دینی بصیرت کی بنیاد پر فلسطین کی آزادی کے مقصد کو عالم اسلام کا ہم ترین مسئلہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کی ایک بڑی جماعت قدس کو عالم استکبار اور بین الاقوامی صیہونزم کے ساتھ اپنے جہاد کا مرکز قرار دیتی ہے،اس امت کی تقدیربیت المقدس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ،بیت المقدس آج سے ہی تقدیر بدلنے والی جنگ کا واضح نمونے پیش کر رہی ہے ۔جو خدا کے نیک بندوں،اسلام کے حقیقی پرچم داروں،توحیدی اقدار کے ماننے والوں اور دینوی و فلسفی اقدار کی پاسداری کرنے والوں کے درمیان موجود رہے ہیں۔ایسی جنگ جس میں توحیدی خدا وند عالم سے امید رکھے ہوئے ہیں اور اسی کے راستے میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
شہید شقاقی ؒ تاکید کرتے ہیں کہ فلسطین کی آزادی کو مرکزی حیثیت دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم لوگ یہ چاہیں کہ موجودہ تحریک اسلامی حکومت اسلامی کی تشکیل،اسلامی تحریک کی وحدت اور اسلامی عالمی انقلاب کی کامیابی جیسے دوسرے اہداف کی اہمیت کو کم سمجھا جائے بلکہ اس نظریہ کی بنیاد پر فلسطین کی آزادی کے لئے ہماری جد وجہد ہمیں اپنے مقصد سے قریب تر کرے گی۔آپس میں عقلی،منطقی اور واضح تعلقات رکھنا،اسلامی تحریکوں کو اپنے مقاصد جو فلسطین کی آزادی پر مبنی ہیں،کو عملی جامہ پہنانے میں مددگار ثابت ہو گی۔
آج ہر زمانے سے زیادہ موجودہ تحریک اسلامی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اپنے فکری اور عملی پروگراموں میں مسئلہ فلسطین کو مرکزی حیثیت دیں اور ایک سیکنڈ کے لئے بھی یہ نہ بھولیں کہ جہاد اور دفاع ایک الہیٰ ذمہ داری ہے۔تحریک اسلامی کے سب بلند و عالی اہداف میں سے ایک خداوند متعال کی خوشنودی کا حصول ہے جبکہ اس کے ثانوی مقاصد میں سارے عالم اسلام میں نئی تحریک اسلامی کی تشکیل دیناہے۔شریعت اسلامی کے عقائد اور احکام کی بنیاد پر مغربی استکبار کی برتری طلب سیاست کا مقابلہ کرنا اور مسلمین کے مشکلات کے لئے راہ حل پیدا کرنا موجودہ تحریک اسلامی کے طویل المدت اہداف میں سے ہیں۔
تحریک جہاد اسلامی اس بات پر اعتقاد رکھتی ہے کہ حکومت اسلامی کی تشکیل کے ذریعہ سے ہی اسلامی سیاسی نظام کو حاکمیت عطا کی جا سکتی ہے ۔
شہید فتحی شقاقی ؒ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تحریک جہاد اسلامی کی طرف سے مسئلہ فلسطین کو مرکزی حیثیت دینے کی تاکید کا یہ مقصد نہیں ہے کہ وہ مقامی،علاقائی یا قومی رحجان والی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے،ایسا ہر گز نہیں ہے!۔اس جہادی تحریک نے جغرافیائی حدود کو نظر انداز کر کے اپنے عمل اور کردار میں قرآنی،تاریخی اور حقیقی اقدار کو معیار بنایاگیاہے۔تحریک نے مذکورہ اقدار کی بنا پر اپنے آپ پر یہ امر لازم کیا ہے کہ اس کی اپنی روز مرہ کی سیاسی سرگرمیوں کا محور اور مرکز مسئلہ فلسطین ہو۔اس لئے کہ اسلام اور کفر اسی طرح اسلام اور مغرب کے درمیان ایک دوسرے سے جدا ہونے کا خط نیز آپس میں عروج کے مقابلے کی سر زمین فلسطین ہی ہے۔
موجودہ تحریک اسلامی اس معیار اور ہدف کی بنیاد پر ہی دوسرے سارے اہداف و مقاصد کے حصول کے لئے قدم بڑھائے گی!۔