ڈاکٹر بردویل نے کہا کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے معاہدہ شکنی کی اسی اسرائیلی خصلت کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ صہیونی دشمن کی جانب سے جب کبھی بھی اہالیان غزہ پر حملہ کیا گیا تو قیام امن کے معاہدے کو ایک طرف رکھ کر اس کو بھرپور جواب دیا جائیگا۔
خبر رساں ادارے ’’قدس پریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر بردویل کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو صرف ایک جانب سے امن کے قیام کی ضمانت نہیں مل سکتی۔ اسرائیل ہمیشہ فلسطینیوں پر مظالم ڈھاتا ہے اور کسی بھی امن معاہدے کی پاسداری نہیں کرتا۔ اسرائیلیوں کی یہ فطرت ہے کہ وہ چیز میں خود کو دوسروں پر فوقیت والا سمجھتے ہیں لہذا اس کے ہاں قیام امن کا مطلب صرف دوسروں کی جانب سے قیام امن ہے جس سے وہ خود کو مکمل طور پر بری سمجھتا ہے۔
ڈاکٹر بردویل نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر پے در پے حملے بھی دراصل مزاحمت کاروں کو دبانے کے لیے تھے۔ اسرائیل نے پہلے ہی روز القسام بریگیڈ کے ایک مجاہد کو شہید کردیا تھا لیکن جیسے ہی اسرائیلی جارحیت کا القسام بریگیڈ نے جواب دیا اسرائیل مشتعل ہوگیا اور اس نے غزہ پر حملوں کی بوچھاڑ کر دی۔ تاہم مزاحمت کار بھی اس کے تمام حملوں کا جواب دیتے رہے اور آئندہ بھی دیتے رہینگے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی مجاہدین نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ اسرائیل کی کسی بھی جارحیت پر خاموش رہنا اس کو مزید غارت گریوں پر ابھارنے کے مترادف ہے۔ اگر اسرائیل کو جواب نہ دیا جائے تو وہ بے گناہ فلسطینیوں پر مزید مظالم ڈھانا شروع کر دیتا ہے۔