اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے سیاسی شعبے کے کارکن شیخ صالح عاروری نے ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی اس خبر کی تردید کی ہے کہ وہ خالد مشعل کی جانب سے سیاسی شعبے کی سربراہی چھوڑنے کے بعد اس کی صدارت کے امیدوار نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں میڈیا میں آنے والی خبریں بے بنیاد ہیں، حماس کے کارکن کے طور پر کام کرنے کو ہی ترجیح دینگے۔
پیر کے روز ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے فلسطینی رہنما ’’شیخ عاروری‘‘ کا کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں ان کے امیدوار ہونے یا حماس کی سربراہی کے مقابلے میں شریک ہونے کی خبریں درست نہیں، یہ سب باتیں بے بنیاد ہیں۔
شیخ عاروری کے ساتھ کیے گئے اس مختصر انٹرویو کی تفصیل درج ذیل ہے۔
سوال: آپ ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان اطلاعات پر کیا کہیں گے کہ آپ خالد مشعل کے بعد حماس کی سربراہی کے امیدوار ہیں اور اس دنگل میں شریک تین افراد میں آپ بھی شامل ہیں؟
جواب: پہلی بات تو یہ کہ حماس کی سربراہی کے لیے کوئی کانٹے دار مقابلہ ہورہا ہے اور نہ ہی اس ضمن میں حماس رہنما ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ جو کچھ کہا گیا وہ خلاف حقیقت ہے۔ حماس کی سربراہی کے لیے امیدوار ہیں مگر اس کو دنگل کہنا مناسب نہیں۔ اور جہاں تک میرے امیدوار ہونے کا تعلق ہے تو ایسا نہیں ہے۔ حماس کے پاس ایسے بہت سے رہنما ہیں جو مجھ سے زیادہ اس ذمہ داری کو باحسن نبھا سکتے ہیں۔ حماس کے سیاسی شعبے کی سربراہی کوئی بھی کرے میں اس میں بطور رکن کام کرتا رہوں گا۔
سوال: کیا ابو الولید کا امیدوار نہ بننے پر اصرار تحریک کے داخلی اختلافات اور اس کے دیگر جماعتوں سے اختلافات کی وجہ سے تو نہیں ہے؟
جواب: اختلاف رائے ایک فطری اور صحت مندانہ رویہ ہے جو حماس میں بھی موجود ہے، ہماری اس تحریک میں فیصلے کرنے کے لیے مختلف کمیٹیاں قائم ہیں جن کے فیصلوں کو ہر کوئی تسلیم کرتا ہے۔ ابو الولید خالد مشعل نے اپنے اقتدار، رتبے اور عہدے کے عروج پر پہنچ کر اسے چھوڑنے کا فیصلہ کر کے آنے والوں کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔ انہوں نے ڈرائیونگ سیٹ چھوڑ کر تحریک کے کارکن کے طور پر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح کے فیصلوں سے وطن کو آزاد کرانے کے لیے سرگرم کسی بھی اسلامی تحریک کے روشن مستقبل کی نشاندہی ہوتی ہے۔
سوال: ذرائع ابلاغ میں اکثر یہ بات اٹھائی جاتی ہے کہ حماس کی قیادت کے درمیان اختلافات اور مقابلے کی فضا اس حد تک پہنچ گئی تھی جس نے ابو الولید کو مزید صدارت کا امیداوار نہ بننے پر مجبور کیا۔
جواب: ان باتوں میں زیادہ حقیقت نہیں۔ غزہ کے دیگر رہنماؤں اور اسماعیل ھنیہ نے تحریک کے حالیہ اجلاس میں ابو الولید کو اس بات پر راضی کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ وہ اگلے مدت کے لیے بھی سیاسی شعبے کی سربراہی قبول کریں اور یہ تحریک کے مفاد بھی ہے، لیکن یہ ان کا اپنا انتخاب ہے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ابو الولید اور غزہ کی قیادت کے درمیان گہری محبت کا تعلق ہے۔
سوال: مفاہمت کے حوالے سے کوئی نئی بات؟
جواب: مفاہمت پر عمل درآمد کے لیے ایسی سنجیدہ حکمت عملی کی ضرورت ہے جس کے لیے چھوٹے مفادات کو بھی قربان کر دیا جائے۔ یہ حکمت عملی قومی مفادات کے منافی بیرونی دباؤ کو خاطر میں لائے اور نہ ہی اسرائیل کے ساتھ بے سود اور خیالی مذاکرات کی بنیاد پر ہو۔ مفاہمت کا یہ تصور قومی اتفاق پر اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور عالمی سطح پر ہمارے حق کے حصول کی جدوجہد پر مبنی ہو گا۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین