اسلامی تحریک مزاحمت ‘‘حماس’’ نے صدر محمود عباس کے نیویارک میں جنرل اسمبلی کے ستاسٹھ ویں سالانہ اجلاس میں خطاب کو مسترد کر دیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ صدر محمود عباس اپنےذاتی خیالات کو پوری قوم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
وہ عالمی فورمز پرمسئلہ فلسطین کا جو موقف بیان کر رہے ہیں۔ وہ اصولی قومی موقف سے صریح انحراف ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے ترجمان اور مرکزی رہ نما ڈاکٹر صلاح الدین بردویل نے کہا کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں صدر محمود عباس نے اپنی تقریر کے لیے جن الفاظ کا انتخاب کیا وہ ماضی میں کئی بار دہرائے جا چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فلسطینی پناہ گزینوںکے حقوق کی نفی کی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اپنے موقف کا اعادہ کیا اور فلسطینی ریاست کی اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت کے بجائے جزوی رکنیت کی بات کی۔ فلسطینیوں کو اس طرح کا موقف منظور نہیں۔ یہ امریکا، اسرائیل اور صہیونیوں کی حامی قوتوں کا موقف ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ نام نہاد امن بات چیت کا ڈرامہ فلاپ ہوچکا ہے، لیکن محمود عباس اس کے باوجود صہیونی دشمنوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے بچھے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں باربار کہا کہ وہ اسرائیل سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ قوم ان سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ آیا فلسطینی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے یادشمن کے ساتھ مذاکرات کرسکتے ہیں۔
غزہ کی پٹی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حماس کے ترجمان ڈاکٹر صلاح الدین بردویل نے کہا کہ محمود عباس نے جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کے ریاستی تشدد پر کوئی بات کرنے کے بجائے سارا زور اسرائیل کی تعریف و توصیف پرصرف کیا۔ انہوں نے فلسطینیوں کی مشکلات سے دنیا کو اگاہ کرنے کے بجائے اسرائیل سے مذاکرات کا باربار ڈھنڈورا پیٹا۔
ایک سوال کے جواب میں حماس کے ترجمان نے کہا کہ صدر محمود عباس نے اپنی تقریر میں فلسطین میں تین مذاہب کا ذکر کیا۔ ان میں مسیحی اور مسلمان تو فلسطین کے اصلی باشندے ہیں لیکن انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کی طرف اشارہ کرکے یہودیوں کو بھی فلسطین کے اصلی باشندوں میں شامل کیا ہے، جو کہ سراسر غلط ہے۔
خیال رہے کہ فلسطینی صدرمحمود عباس نے جمعرات کے روز جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل سے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں باربار کہا کہ وہ تل ابیب سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ اس بار انہوں نے اپنی تقریرمیں یہودی بستیوں کی تعمیر روکے جانے کے بارے میں کوئی خاص بات نہیں کہی۔ جس پرفلسطینیوں میں سخت غم وغصہ پایا جا رہا ہے۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین