فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں صدر محمود عباس کی جماعت الفتح کی حکومت کی جانب سے اسلامی تحریک مزاحمت ‘‘حماس’’ کے ساتھ انتقامی کارروائیوں، اراکین کی گرفتاریوں، سیکیورٹی مراکز میں طلبیوں اور سرکاری ملازمتوں سے برطرفیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطین میں قومی مفاہمت کے لیے ہونے والی بات چیت کے علی الرغم فلسطینی انتظامیہ کی جانب سے حماس کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں جولائی کے مہینے میں حماس کے کم سے کم 65ارکان کو حراست میں لے لیا۔حماس کی جانب سے جولائی کے مہینے میں مغربی کنارے میں اپنے کارکنوں کی گرفتاریوں کے بارے میں جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی میں جن پینسٹھ فلسطینی قیدیوں کو حراست میں لیا گیا، ان میں جامعات کے طلباء اور اساتذہ، سابق اسیران، سیاسی کارکن اور انسانی حقوق کے مندوبین بھی شامل ہیں۔ ان میں کئی ارکان ایسے ہیںجنہیں صہیونی جیلوں سے حال میں رہا کیا گیا تھا۔
حماس نے اپنے بیان میں نے سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کی سنگین نوعیت کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ عباس ملیشیا کے اہلکار سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو گرفتار کرکےان کے ساتھ جنگی قیدیوں کا سلوک کرتے ہیں جو عالمی انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ حماس نے سیاسی کارکنوں کی مسلسل حراست کو قومی مفاہمت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے صدر محمود عباس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس پر سختی سے پابندی لگائیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین