اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے ترجمان فوزی برھوم کا کہنا ہے کہ مسجد اقصی پر یہودی آباد کاروں کے تازہ دھاوے اسرائیل کے جانب سے اسلامی مقدس مقامات کی شناخت مٹانے اور ان کو یہودی رنگ میں رنگنے کی پالیسی کا ہی ایک حصہ ہیں۔
فوزی برھوم نے یہودی آباد کاروں کی جانب سے مسجد اقصی میں داخل ہوکر اس کی بے حرمتی کرنے کی مہم میں اسرائیلی حکومت کے بھرپور تعاون پر اسے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فوزی برھوم کا کہنا تھا کہ یہ سب اسی دینی جنگ کا حصہ ہے جو اسرائیل نے مقدسات کے خلاف شروع کر رکھی ہے۔ مقدس مقامات کی بے حرمتی کی اس جنگ میں اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے والی فلسطینی اتھارٹی اور امریکا بھی برابر کے شریک ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایسے نازک وقت میں جب یہودی آباد کاروں کی جانب سے مسجد اقصی میں گھس کر تلمودی عبادات کی ادائیگی اور مسجد کی بے حرمتی کی بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے فلسطینی اتھارٹی کو ٹھوس موقف اپنا کر اس کی اسلامی دنیا اور عالمی برادری میں بھرپور ترویج کرنی چاہیے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ موقع آگیا ہے کہ مسجد اقصی اور دیگر مقدسات کی حفاظت کے لیے ایک سکیورٹی نیٹ ورک قائم کیا جائے جو اسرائیل پر اسلامی مقدسات پر دھاوے روکنے کا دباؤ ڈالے اور اپنی سرزمین اور مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے مزاحمت کی مدد کرے۔
یاد رہے کہ جمعرات کی علی الصبح بھی اسرائیلی فوج مسجد اقصی پر دھاوا بول کر امام مسجد کو گرفتار کرلیا تھا اور معتکفین کو زبردستی مسجد سے باہر نکال دیا تھا۔ القدس کے ذرائع نے بتایا کہ بیس سے زیادہ معتکفین نے رات کی نماز شروع ہی کی تھی کہ اسرائیلی فوج کی بڑی تعداد نے اچانک مسجد پر حملہ کردیا اور ان لوگوں کو نمازیں تڑوا کر انہیں مسجد سے باہر نکال دیا۔ امام مسجد کو بھی اس وقت گرفتار کرکے نامعلوم مقام منتقل کردیا گیا جب وہ عین سجدے کی حالت میں تھے۔ صہیونی فورسز کی اس اندوہناک کارروائی کے بعد القدس کی مختلف کالونیوں میں فلسطینی نوجوانوں اور اسرائیلی فورسز کے درمیان کئی گھنٹے جھڑپیں جاری رہیں۔
یاد رہے کہ بدھ کے روز بھی 120 یہودی آباد کار اسرائیلی فوجیوں کے جھرمت میں مسجد کے صحن میں دندناتے پھرتے رہے تھے۔ ادھر صہیونی انتہاء پسند تنظیموں نے اتوار کے روز ھیکل سلیمانی کی تباہی کی یاد میں مسجد اقصی میں مختلف تقریبات کا اہتمام کر رکھا ہے اور ان دنوں ملک بھر سے یہودیوں کو اس روز مسجد اقصی میں لانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین