قطع نظر اس کے کہ اقوام متحدہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کیا قوانین بناتی ہے،جیسے جبری مشقت سے بچانا،حصول علم کے مواقع میسر کرنا،
روزگار فراہم کرنا،حفظان صحت کے وسائل کی فراہمی کا بندو بست کرنا ،جس کے لئے مختلف بین الاقوامی قوانین اور قرار دادیں پاس کی جا چکی ہیں اور قوانین اور قراردادوں پر کتنا عمل ہوا؟ کتنا باقی ہے؟
سب سے بڑھ کر ان معصوم بچوں کی جانوں کا تحفظ ممکن بنایا جا سکا یا نہیں ،یہ اور اس قسم کے دیگر سوالات۔۔۔موجود ہیں۔مگر چونکہ قوانین کا اطلاق اور قوانین کے نفاز کے نعرے تیسری دنیا کے ان ممالک کو بلیک میل کرنے لے لئے لگائے جاتے ہیں جو امریکہ اور یورپی یونین کے قرضوں ،عالمی بینک ،آئی ایم ایف کے قرضوں سے ملک چلاتے ہیں۔یا پھر ان بڑی طاقت کے جہاں مفادات ہوں وہاں پر جلد از جلد نافذ کئے جاتے ہیں۔اور اگر کسی طرح وہ مسائل بڑی طاقتوں کے زیر بام آنے والے کسی ملک میں ہوں یا خود ان کے مفادات نہ ہوں تو قدرتی امر بن جا تا ہے کہ وہ ان قوانین کے حوالے سے کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہ کرے۔
قدیم جاہلی ادوار میں بھی جب جنگیں ہوتی تھیں تو عورتوں اور بچوں پر ہاتھ نہ اٹھانے کا اعلان کیا جاتا تھا مگر ان کو بعد میں غلام یا کنیز بنا دیا جا تا تھا،لیکن چونکہ اب تہذیب و تمد ن کا دور دورہ ہے ،بقول ان کے دنیا عالمی دیہات بن چکی ہے اب بڑی طاقتوں اور ان کے گماشتوں نے انسانوں کو فکری طور پر غلام بنانے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی ،یہ باتیں جملہ معترضہ کے طور ر آگئیں۔
بات ہو رہی تھے فلسطین کے بچوں کی ،جاہلیت جدید کے علمبردار امریکہ کی سرپرستی میں صیہونیوں کی سفاکیت اس مقام تک پہنچ گئی ہے کہ وہ دن دیہاڑے لوگوں کے گھر مسمار کر دیتے ہیں اور ان کی جگہ یہودیوں کے مکانات کو تعمیر کر دیا جاتاہے۔ان مسمار گھروں کے ملبے تلے معصوم جانیں اقوام متحدہ کے جنیوا کنونشن ،بچوں کے حقوق ، تعلیم،تحفظ سے متعلق تمام قوانین پاؤں تلے اسرائیل روند رہا ہے۔مگر جب جب اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ میں کوئی مؤثر قرارداد کے پاس کرنے کی بات ہوئی ،اسے امریکہ بہادر نے ویٹو کر دیا۔بچوں کے لئے تعلیم کا بندو بست کرنا ،جینے کا حق ،روز گار الاؤنس یہ سب باتیں مفت کی لگائی جانے والی ہانک ہے جس پر کبھی عمل نہیں کیا گیا۔امریکہ کی اس دوغلی پالیسی کے سبب سے دنیا بھر کا سکون تباہ و برباد ہو چکا ہے۔مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کے ہاتھوں فلسطینی بچے ،مظلومیت کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں،یرغمال ہونا،قید ہونا،حتیٰ کہ قتل ہونا ،معمول بن چکا ہے۔
جہان عبداللہ ،رملہ سے لکھتا ہے ،سیکڑو ں فلسطینی بچے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہر سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں معصوم بچے اکثر خوف و ہراس کی وجہ سے راتوں کو کپڑے گیلے کر دیتے ہیں،اچانک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں ،چیخ و پکار کرتے ہیں۔پچھلے دنوں منگل کو رہائی پانے والے ایک بچے کی رپورٹ شائع ہوئی جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ،سنہ 2000ء سے اب تک 8000سے زائد بچے مغربی کنارے سے پکڑ لئے گئے ،کچھ قتل کر دئیے گئے اور کچھ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے،ملٹری کورٹ کے پراسیکیوٹر نے بیان میں کہا کہ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کی وہ نسل جو ابھی پوری طرح 12سال کی عمر تک نہیں پہنچی یا 13سال کی عمر کو پہنچ رہے ہیں ،اسرائیلیوں کی طرف پتھر پھینکنے کے جرم میں گرفتار کئے گئے،پتھر پھینکنے کے جرائم کا آدھا مجموعاً 98%کل آبادی کا جیلوں کے لاک اپ میں بند کئے جاتے ہیں اور یہ کہ ان بچوں پر مقدمات ملٹری کورٹس میں چلائے جاتے ہیں۔اور سرسری سماعتوں کے زریعے ان کو جیل بھیج دیا جاتا ہے ان تمام قیدی بچوں کا رہائی کے بعد طرح طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہونا،اسرائیلی درندوں کے خوف و ہراس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔نجی ٹیلی ویژن کے نمائندے نے کہا کہ،دو سال قبل 2010ء میں بالترتیب 2300اور پھر 3470بچوں کو حبس بے جا میں رکھا گیا اور پھر ان کو مختلف مراحل اور خوف و ہراس سے گزار کر ان کو نفسیاتی مریض بنانے کی کوشش کی گئی ،دیفنس فار چلڈرن انٹر نیشنل نامی تنظیم کی فلسطین شاخ ’’حقوق گروپ‘‘ کے مطابق اس وقت ایک سو ستر بچے مقبوضہ فلسطین کی صیہونی جیلوں میں ہیں۔بچوں کا قید و بند کا شکار ہونا،بچوں اور ان کے خاندان والوں اور ان کے پورے سماجی نظام کو متاثر کرنا ہے۔
فلسطینی امور کے لئے یونیسف کی سربرا ہ ’’سودا مینی‘‘ جو بچوں کے امور کی نگراں ہیں نے چیختے ہوئے کہا،اسرائیل کی ظلم وبربریت پر مبنی پالیسیوں کے حوالے سے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ ظالم صیہونی فلسطینی بچوں پر ملٹری کورٹس میں مقدمہ چلاتے ہیں اور ان کو جلد سے جلد جیلوں میں بھیج دیتے ہیں۔صرف سال 2011ء کو 383بچے گرفتار کر کے جیل بھیج دئیے گئے اور پھر 2012ء کے پہلے مہینے کے پہلے ہفتے میں 15بچے گرفتار کئے اور انہیں بھی جیل بھیج دیا گیا۔ادھر ایک طرف قیدیوں کے تبادلے کے پروگرام کے تحت غاصب صیہونیوں نے فلسطینیوں کو رہائی دی تو دوسری طرف دوبارہ فعال کارکنوں کو دھڑا دھڑ گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ اسرائیلی حملہ آور فورس جس کو offence forceکہتے ہیں نے 73مردوں اور 15بچوں کو گرفتار کر لیا۔
28دسمبر2008ء کا قتل عام
جبالیا شہر پر اسرائیلی سخت بمباری جو F-16طیاروں نے کی اس حملے سے ایک ہی خاندان کے 5بچوں کی شہادت واقع ہوئی۔جبکہ مارچ 2010ء کو 6 بچے قتل کئے گئے۔بچوں کی یہ تعداد ایک جھلک ہے،اسرائیلی ظلم وستم و بربریت کا جو سنہ 1948ء سے جاری ہے اور خصوصاً صبرا اور شتیلا کے کیمپوں کا قتل عام کو کون بھلا سکتا ہے؟ قانا کے صحرا میں مظلوم فلسطینی،مردوں ،عورتوں اور بچوں کا قتل عام ہوا،مگر مہذب دنیا کے جدید باسیوں میں کوئی نہیں جو اس ظالم بھیڑئیے کو لگام دے دے۔امریکہ جو عالمی انسانی حقوق کا ٹھیکیدار بنا پھرتا ہے انسان ہونے کا دعویدار ہے ،ویٹو کے زریعے سے اقوام عالم کے پلیٹ فارم پر اسرائیل کو بچانے کی وجہ سے اس کے نا حلف بھیڑئیے اسرائیل کی خونخواریت میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے۔اس خون خواریت کا منطقی انجام یقیناًمکافات عمل کی شکل میں سامنے آئے گا،اور خدا وند عالم اندرون فلسطین ہی مجاہدین کے ذریعے یہ عمل انجام دے گا ،اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں سے متعلق ایجنسی کے مطابق اسرائیلیونے مئی اور جون 2011ء کو 432فلسطینی مرودں اور عورتوں سمیت 67بچوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا یہ سب باتیں دنیا کے کس قانون کے مطابق انجام پاتی ہیں؟اقوام متحدہ کے کس قانون کی کون سی شق ہے؟ جو خصوصیت کے ساتھ فلسطینیوں کے بارے میں ایسا حکم دیتی ہے سوائے امریکہ ،اسرائیل اور ان کے جرائم پیشہ ساتھی یورپی یونین اور دیگر انکے ہم پیالہ بے حس مسلمان حکمران جو کبھی صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے ،نہ صرف نہیں کرتے بلکہ احتجاج کرنے والوں کو دہشت گرد گردانتے ہوئے سڑکوں پر لہو لہان کر دیتے ہیں یا پھر انہیں جیلوں کی زینت بنا دیتے ہیں۔
او ر پھر فلسطینی بچے جن کو تحفظ دینے کی بجائے صرف سکون کی زندگی ہی نہیں چھینتے بلکہ پوری زندگی چھین لیتے ہیں ،کیا دنیا بھر میں انسانیت نام کی کوئی چیز ہے؟ با ضمیر انسانوں کی کوئی جماعت نہیں ہے؟ اگر ہے تو کہاں ہے؟دنیا والو ں کو اس ظلم و بربریت پر خاموش نہیں رہنا چاہئیے ورنہ ان سب کو اس ظلم و بربریت میں برابر کا شریک سمجھا جائے گا۔وہ دن دور نہیں کہ جب دنیا بھر کے انسان مظلوموں کی حمایت کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے اور مسلمان جوان بیداری کا علم لے کر خدائے ذوالجلال کی مدد کے سایہ میں اللہ کے وعدوں پر روح کی گہرائیوں سے یقین کرتے ہوئے اس کے حتمی وعدوں کو عملی شکل اختیار کرتے ہوئے اپنے آہنی عزم و ارادوں کے زریعے مشاہدہ کریں گے،ظالموں کے دن گنے جا چکے ہیں۔
مظلوم و مقتول بچوں کا بے گناہ خون یقیناًضائع نہیں ہو گا ،اور رنگ ضرور لائے گا۔گھروں سے بے گھر اور بے آشیانہ ،خواتین اور بچوں کی آہیں اور سسکیاں یقیناًسنی جائیں گی اور ظالم کو پتہ چل جائے گا کہ اسباب و علل کی دنیا میں ظلم کے مقابلے میں دیر لگتی ضرور ہے مگر اندھیر نہیں ہے۔