فلسطینی مجاہدین کے اسرائیلی اعصاب پر طاری خوف کا یہ عالم ہے کہ قابض اسرائیلی فوج اپنے ہی ہاتھوں شہید ہونے والے مجاہدین کی قبریں بھی ان کےآبائی علاقوں میں بنانے کی اجازت دینے سے انکاری ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق قابض صہیونی فوجیوں نے جمعرات کو مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر الخلیل کے ایک شہید کی میت کو اس کے ورثاء کے حوالے کرنے کے بجائے اسے غزہ کی پٹی میں لے جایا گیا ہے۔ شہداء کی قبروں اور ان کی تربت سے بھی صہیونی اس حد تک خوف زدہ ہیں کہ انہوں نےچھتیس سال قبل مرتبہ شہادت پانے والے ایک فلسطینی کو اس کے آبائی شہر الخلیل میں سپرد خاک کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔
خیال رہے کہ اسرائیلی انتظامیہ نے جمعرات کے روز مختلف کارروائیوں اور فدائی حملوں میں شہید ہونے والے 91 فلسطینیوں کے جسد ہائے خاکی ان کے ورثاء کے حوالے کیے۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق مغربی کنارے سے ہے جبکہ 12 شہداء غزہ کی پٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ شہادت کے بعد قابض صہیونی فوج نے ان کی میتیں قبضے میں لے لی تھیں۔ ان میں سے بعض کو شہید ہوئے کئی سال بیت چکے ہیں۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق جمہوری محاذ برائے آزادی فلسطین نامی فلسطینی تنظیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ الخلیل کے جس شہید کی میت کو غزہ کی پٹی بدر کیا گیا ہے وہ اس کے ایک رہ نما احمد سلمان مغنم الزغارنہ المعروف خالد ابو زیاد کی ہے۔ اس کے ورثاء اور جماعت کی قیادت الخلیل میں اس کی میت کی وصولی کی منتظر تھی لیکن صہیونی فوج نے اس کی میت کو بھی غزہ کی پٹی کی طرف لے جانے والے جسد ہائے خاکی میں شامل کردیا۔
جمہوری محاذ نے صہیونی حکومت کے اس اقدام کی شدید مذمت کی اور کہا کہ شہید خالد ابو زیاد کی میت کو اس کےآبائی شہر کے بجائے ایک دوسرے علاقے میں منتقل کرنے صہیونی فوجیوں پر فلسطینی مجاہدین کے خوف کھل کر سامنے آگیا ہے۔ صہیونی زندہ تو کیا فلسطینی شہداء سے بھی خوف زدہ ہیں۔ خیال رہے کہ فلسطینی شہید خالد ابو زیاد اٹھارہ مئی سنہ 1976ء کو وادی اردن میں اسرائیلی فوج کے ساتھ ایک معرکے میں جام شہادت نوش کر گئے تھے، جس کے بعد قابض فوج نے اس کا جسد خاکی بھی قبضے میں لے لیا تھا۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین