بیروت میں اسلام ٹائمز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے یہودی ربی کا کہنا تھا کہ صیہونی ریاست کا وجود توریت کی تعلیمات کے یکسر منافی اور خدا کے ساتھ بغاوت کے مترادف ہے۔
توریت میں واضح حکم آیا ہے کہ مذہب یہود کے پیروکار غصب اور قتل سے دور رہیں، توریت میں زمین کا ایک انچ بھی یہودی ریاست کے نام پر حاصل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
صیہونی ریاست کا پرامن خاتمہ چاہتے ہیں، ربی یسرائیل ڈیوڈ ویس
ربی یسرائیل ڈیوڈ ویس صیہونیت کے خلاف کام کرنے والی یہودی تنظیم Neturei Karta International کے سرگرم اور فعال رکن ہیں اور نیویارک میں اس تنظیم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے گلوبل مارچ ٹو یروشلم کے موقع پر بیروت میں یہودی مذہبی پیشواء کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا تھا، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔
گلوبل مارچ ٹو یروشلم میں شرکت کا مقصد بیان کریں۔؟
ربی یسرائیل ڈیوڈ: ہم فلسطینی اور لبنانی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے یہاں آئے ہیں۔ ہمارے وفد میں وہ یہودی ربی شامل ہیں جنہوں نے پوری دنیا میں صیہونیت کے خلاف پرامن احتجاج کیا ہے۔ انہوں نے یروشلم فلسطین، برطانیہ اور امریکہ کے مختلف حصوں میں صیہونی مظالم کے خلاف پرامن مظاہرے کئے ہیں۔ ہم فلسطینی مظلوم عوام کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پوری دنیا کے یہودی جو مذہب یہود اور توریت پر ایمان رکھتے ہیں، وہ اسرائیلی ریاست کے وجود کے سخت خلاف ہیں۔ صیہونی ریاست کا وجود توریت کی تعلیمات کے یکسر منافی اور خدا کے ساتھ بغاوت کے مترادف ہے۔
توریت میں واضح حکم آیا ہے کہ مذہب یہود کے پیروکار غصب اور قتل سے دور رہیں، توریت میں زمین کا ایک انچ بھی یہودی ریاست کے نام پر حاصل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ گذشتہ دو ہزار سال سے یہودیوں نے اپنی ریاست کے قیام کے حوالے سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں یہودیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اب جو لوگ یہودی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں وہ مذہب یہود سے، یہودی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں۔ اسرائیل کی بنیاد رکھنے والے جیبوٹینسکی، ڈیوڈ بن گورین، خائم عزرائیل تمام لادین اور خدا سے بغاوت کرنے والے لوگ ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کی بنیاد اس واسطے نہیں رکھی کہ یہ لوگ یہودیت کی ترویج چاہتے ہیں، بلکہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کی خاطر مذہب کو استعمال کیا گیا ہے۔
صیہونیت کے دنیا پر قبضے کے عزائم بارے تلمود میں کیا کہا گیا ہے۔؟
ربی یسرائیل ڈیوڈ: تلمود میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاک سرزمین پر قابض نہ ہونا اور نہ ہی کسی کو اس کی زمین سے بے دخل کرنا۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہودی لوگوں پر بہت ظلم ڈھائے گئے، ہٹلر کے زمانے میں ان کا قتل عام کیا گیا، لیکن گزشتہ دو ہزار سال سے صیہونیت کے آغاز تک اتنی مصیبتیں اٹھانے کے باوجود یہودیوں نے خالی اور بنجر زمین پر بھی قابض ہونے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ یہ خدا کا حکم ہے اور اس نے ہمیں ایسا کرنے سے روکا ہے۔ یہودی عقیدے کے مطابق ہم لوگ یقین رکھتے ہیں اور انتظار کر رہے ہیں اس دن کا جب خدا کے حکم سے معجزہ رونما ہو گا اور تمام دنیا ایک خدائے واحد کی فرمانبردار ہو جائے گی، اس دن تک ہم یہودی ریاست کے قیام کو ممنوع سمجھتے ہیں۔ یہ یہود کا عقیدہ ہے جس پر ہم سختی سے کاربند ہیں اور اس کا حکم ہمیں ہماری متبرک کتب توریت و تلمود میں دیا گیا ہے۔
ظلم تو یہ ہے کہ صیہونی اس سرزمین پر قابض ہوئے جو دراصل مسلمانوں، عیسائیوں اور یہود کی آبائی سرزمین ہے اور وہ اس قبضے کے شدید مخالف ہیں۔ میرے پاس ایک تاریخی خط ہے، جو 1947ء میں فلسطین کے چیف ربی نے اقوام متحدہ کو لکھا اور مطالبہ کیا کہ پوری دنیا کی آرتھوڈاکس یہودی کمیونٹی جو ساٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے صیہونی ریاست کے قیام کے سخت خلاف ہے اور یروشلم کو یہودی ریاست میں شامل کرنے کی شدید مخالفت کرتی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ یروشلم کو بین الاقوامی زون قرار دیا جائے، تاکہ وہاں کے باسی آزادی سے اپنے زندگی بسر کر سکیں۔ لیکن جب فلسطین کے چیف ربی نے دیکھا کہ ان کے مطالبے کو رد کر دیا گیا ہے تو اس دن سے یہودی مذہبی پیشواؤں نے صیہونیت کے خلاف احتجاج شروع کیا جو تاحال جاری ہے اور اسرائیل کے زوال تک جاری رہے گا۔
آرتھوڈاکس یہودی پوری دنیا میں صیہونی ریاست کے خلاف پرامن احتجاج کرتے ہیں، جنہیں بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور قتل کیا جاتا ہے۔ اس کے باجود ہزاروں یہودی اسرائیل کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں، جو کبھی بھی میڈیا پر نہیں دکھائے جاتے۔ ہم نے مین ہیٹن امریکہ میں اسرائیلی سفارتخانے کے سامنے بہت بڑا مظاہرہ کیا، اس کے علاوہ جب نیتن یاہو، اوبامہ سے ملنے وائٹ ہاؤس آئے اس وقت بھی اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہرہ کیا گیا، لیکن یہ سب میڈیا پر نہیں دکھایا جاتا۔
آپ کیا سمجھتے ہیں، میڈیا کے اس اندھے پن کی کیا وجہ ہے، کیا ہم اسے صیہونی لابی کا میڈیا پر کنٹرول قرار دے سکتے ہیں۔؟
ربی یسرائیل ڈیوڈ: بالکل، صیہونی لابی بہت بڑی تعداد میں اخبارات اور ٹی وی کنٹرول کر رہی ہے۔ مختلف طریقوں سے میڈیا پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر کوئی اخبار فلسطین کے حق اور اسرائیل کے خلاف لکھ دے تو اس کے اشتہارا ت اور فنڈز بند کروائے جاتے ہیں۔ اسی طرح سیاسی شخصیات کو کنٹرول کرنے کے لئے اے پی اے سی کے نام سے ایک تنظیم کا کر رہی ہے، جو سیاستدانوں کو بھاری رقوم دے کر اسرائیل کے حق میں بیان دلواتی ہے۔
دنیا بھر سے اسرائیل کے خلاف بڑھنے والے فلوٹیلاز،فلائے ٹیلاز اور گلوبل مارچز کو کس نگا ہ سے دیکھتے ہیں۔؟
ربی یسرائیل ڈیوڈ : ہمیں خداوند سے امید ہے کہ یہ اقدامات اسرائیل کے خلاف تحریک کو مزید تیز کرنے کا باعث بنیں گے۔ دنیا اب بیدار ہو چکی ہے اور اسرائیل کی مکاریوں کو جان چکی ہے، اسرائیل دنیا کو باور کرانا چاہتا تھا کہ مسئلہ فلسطین مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک مسئلہ ہے، لیکن دنیا کو معلوم ہو گیا ہے کہ یہ ایک مذہبی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک انسانی المیہ ہے۔ اسرائیل مسلمانوں پر الزام لگاتا ہے کہ مسلمان یہودیت سے شدید نفرت کرتے ہیں، لیکن اگر حقیقت کو دیکھا جائے تو یہودی صدیوں سے مسلم ممالک میں اکٹھے رہتے آئے ہیں اور مسلمانوں نے نہ صرف یہودیوں کو پناہ دی بلکہ مختلف جنگوں میں ان کی جانیں بچائیں ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ یہودی پوری دنیا پر قابض ہونے کے خواب دیکھتے ہیں، کیا یہ تعلیمات تلمود کی عطا کردہ ہیں۔؟
ربی یسرائیل ڈیوڈ: خداوند کی مدد سے میں یہ آپ کے گوش گزار کرتا ہوں کہ تلمود میں یہود کو چنیدہ انسان کہا گیا ہے، لیکن صیہونی اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ جیسا کہ جنوبی افریقہ میں کیا گیا اور نسلی امتیازات کو فروغ دیا گیا۔ جنوبی افریقہ کو اس وجہ سے احترام دیا جاتا رہا ہے وہ ایک Apartheid state ہے، جسمیں نسلی امتیاز روا رکھا جاتا تھا۔ ساٹھ سال قبل امریکہ میں نسلی امتیازات کا رواج عام تھا۔ لیکن ہم ان تمام امتیازات سے بالاتر ہو کر صیہونی ریاست کا پرامن خاتمہ چاہتے ہیں۔
صیہونی ریاست مذہبی ترویج کے لئے ہے یا مادہ پرستی کی ایک کوشش ہے۔؟
ربی یسرائیل ڈیوڈ : صیہونیت کی بنیاد رکھنے والے لوگ لادین اور خدا کے باغی ہیں، انہیں دین سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ اس کا برملا اظہار بار بار کرتے ہیں کہ صیہونی ریاست خدا کی عطا کردہ ہے، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ خدا پر یقین ہی نہیں رکھتے۔
ہولوکاسٹ کے بارے میں کیا کہیں گے۔؟
ربی یسرائیل ڈیوڈ: اس سانحے میں میرے اجداد قتل ہوئے، لیکن اس سانحے کا بہانہ بنا کر لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا جائے اور قتل عام کیا جائے، یہ سراسر زیادتی ہے۔ صیہونی یہودیوں کا نام استعمال کرکے دنیا سے ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ان کی ناانصافیوں اور بد اعمالیوں پر پردہ ڈالا جا سکے۔ ہم احمدی نژاد کی اس بات میں بھرپور تائید کرتے ہیں کہ جرمنی سے صیہونیوں کو بے دخل کیا گیا ہے۔ فلسطین کی بجائے جرمنی میں صیہونی ریاست کا مطالبہ کیا جائے۔ آخر میں ہم مسلمان ممالک کو سلام پیش کرتے ہیں، جنہوں نے صیہونیت کے خلاف ہماری تائید کی اور امید کرتے ہیں کہ اس ظالم صیہونی ریاست کا جلد پرامن خاتمہ ہو جائے گا۔